ڈین کونٹز، امریکی لکھاری ہے جو کہ سسپنس، تھرلر اور فکشن لکھنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ 1981 میں اسکی لکھی گئی کتاب The Eyes of Darkness نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی جس میں چین کے شہر ووہان سے نکلے ایک وائرس نے تباہی مچا دی تھی۔ مزے کی بات ہے کہ کرونا وائرس بھی چین کے شہر ووہان سے نکلا تو لوگوں نے ڈین کو نجومی اور مہان لکھاری سمجھنا شروع کردیا اور آج کل اسکی چاندی اس سے زیادہ ہوگئی جتنی ہمارے “ون پاؤنڈ فش”والے کی پہلے اور اکلوتے گانے سے ہوئی تھی۔
امریکی فلموں اور ناولوں میں کردار سیاسی اور جنگی صورتحال کے مطابق لکھے جاتے ہیں۔ روس کے ساتھ جنگ کے دوران “جان ریمبو”, طالبان کی مدد کرنے پہنچ جاتا ہے جبکہ طالبان سے جنگ کے دوران مارک واہلبرگ، شمالی اتحاد کی؛ اسی طرح 1981 میں لکھی گئی The eyes of darkness میں یہ وائرس روس کے شہر گورکی (Gorki)میں سے نکلا تھا جو کہ ماسکو کے نواح میں واقع ہے، کیونکہ ان دنوں امریکہ کا روس سے پنگا چل رہا تھا جبکہ اس کتاب کے 2008 کے ایڈیشن میں گورکی کی بجائے اسے چین کے شہر ووہان سے نکال دیا گیا جو کہ تجارتی اور صنعتی شہر ہے۔ کیونکہ گزشتہ دو دہائی سے امریکہ کی چین سے معاشی جنگ جاری ہے۔ روس کے زمانے میں اس وائرس کا نام Gorki 400 تھا اور ،2008 کے بعد سے یہ Wuhan 400 بن گیا ہے۔
اسکے علاوہWuhan 400 موجودہ کرونا سے بہت مختلف ہے۔ ڈین کونٹز کے مطابق وائرس ایک سے دوسرے کو لگ کر اسے تین سے چار گھنٹے میں بیمار کردیتا جبکہ کرونا کا متاثرہ شخص چودہ دن تک یہ جانے بغیر کہ اسکے اندر وائرس ہے دوسروں میں پھیلاتا رہے گا۔ اور ڈین کونٹز کے مطابق Wuhan 400 کا متاثرہ ہر مریض مرجاتا جبکہ کرونا کے %0.7 متاثرہ لوگ موت کا شکار ہورہے ہیں۔ اعداد و شمار کے تجزیے statistical analysis کے مطابق Wuhan 400 اور کرونا کی تھوڑی بہت مماثلت کوئی بہت بڑا اتفاق نہیں۔
ٹرمپ کے “چائینیز وائرس” سے لے کر وٹس ایپ پر گردش کرنے والی conspiracy theories کے مطابق چین نے یہ وائرس پھیلایا ہے جبکہ چند ایک جو خبریں تک نہیں دیکھتے کہ امریکہ کی کتنی تباہی ہوئی ہے، ٹرمپ کو اسکا الزام دے رہے ہیں۔ فرض کریں اگر یہ چین سے آیا ہے تو کیسے؟ کیا چمگاڈر کے سُوپ سے؟ یا ووہان کی لیبارٹری سے؟ اگر لیبارٹری سے آیا تو کیا حادثاتی طور پر لیک ہوا یا ایک چھوٹے پیمانے پر تجربہ آؤٹ آف کنٹرول ہوگیا؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ کرونا سے بھی خطرناک ہنٹا وائرس hantavirus چین میں پھیل رہا ہے؟ تو کیا یہ سارے کے سارے کتے، چوہے، چھپکلی، چمگاڈر اور وہ بھی کچے پکے کھانے سے نکل رہے ہیں یا پھر کسی لیبارٹری سے یہ سب لیک ہورہے یا موسم بدلنے اور گلیشیر پگھلنے سے کروڑوں سال پہلے کے عذاب وائرس باہر نکل رہے ہیں؟ یہ سب سوالات ہیں اور انکے جوابات نہیں ہیں تاہم اگر کسی نے اپنی مرضی کے جوابات گھڑ کے فیس بک یا یو ٹیوب پر likes اور views لینے ہیں تو یہ اور بات ہے۔
بہت سے تجزیہ نگار اسکے پھیلاؤ کی متفرق وجوہات بتا رہے ہیں؛ میرا خیال ہے کہ “سوٹا پیر” اسکا حل ہے۔ چین اور شمالی کوریا میں جمہوریت چُو چُو پُو پُو نہیں۔ جب حکومت نے کہہ دیا کہ باہر نہیں نکلنا اور پھر باہر نکلو گے تو ساتھ ہی روح بھی جسم سے نکال دیں گے جبکہ جتنی دیر میں اٹلی والوں کو عقل اور دانش اور انکے “جمہوری حقوق” کے مطابق انھیں سمجھانے کی کوشش کی گئی اتنی دیر میں لاشیں بچھ گئیں اور اٹلی قبرستان بن گیا۔ اسی طرح ہمارے “ریتک روشن” اور “جان ابراہم” خالی سڑکوں پر موٹر سائیکل کے کرتب دکھانے سے باز نہ آئے اور ابھی مرغے بن کر “تشریف” پر سوٹیاں کھا کر سکون سے ہیں ورنہ انکو بھی لگتا تھا کہ یہ مذاق ہے۔ بقول خالد مسعود
لُچے کو سمجھایا پیار سے صفر نتیجہ نکلا
ہم نے یہ ازمایا سوٹا سوٹا ہی ہوتا ہے
مارشل لا اسٹائل کرفیو کی ضرورت ہے اور جو بھی مذہبی یا سیکولر چھ فٹ فاصلے کی خلاف درزی کے حق میں بیان دے، اس پر اقدام قتل کا اور خدانخواستہ اگر اس مسجد یا امام بارگاہ کا کوئی نمازی کرونا سے فوت جائے تو 302 کا مقدمہ چلے۔
کچھ لوگ ملیریا کی دوائی اور کچھ دوسرے ٹوٹکے بانٹ رہے جن میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ جیروم کم، ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشل ویکسین انسٹیٹیوٹ کے تیئس مارچ کے الجزیرہ پر انٹرویو کے مطابق، کرونا کی ویکسین کو بننے میں ایک سال لگ سکتا ہے اور آپ تک پہنچنے میں کتنے سال لگیں گے اور جب تک کتنے متاثرہ زندہ رہیں گے؟ اگلے دو ہفتے پاکستان کے لئے اتنے اہم ہیں کہ اگر تفصیل بتا دیں تو بہت سے لوگ خوف سے کھانا نہ کھا سکیں۔اتنا یاد رکھیے پاکستان کے پاس صرف ڈھائی ہزار وینٹیلیٹرز ہیں، اگر چین سے آٹھ ہزار اور آ بھی گئے تو اتنے آکسیجن سیلنڈر کہاں سے آئیں گے، تربیت یافتہ عملہ کہاں سے آئے گا؟ تو گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے، فاصلہ رکھیں اسکے علاوہ کوئی حل نہیں۔ جو دعائیں مانگنی ہیں، چلے کاٹنے ہیں، یہ بہترین ٹائم ہے؛ الگ کمرے میں بیٹھ کر کریں؛ باجماعت مت کریں۔ زندگی خوبصورت ہے اسکی قدر کریں، فاصلہ رکھیں!!!
نوٹ؛ امریکہ میں ڈاکٹروں کی تنظیم APPNA,کرونا وائرس کے لئے فنڈ ریزنگ کررہی ہے۔ appna dot org پر جاکر چندہ دیں تاکہ فرنٹ لائین پر لڑنے والے ڈاکٹروں, نرسوں اور عملے کو مناسب ماسک اور آلات پہنچا کر ان کی مدد کی جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید اور چاروں کونسل جنرلز کی مدد کے ہم بے حد شکرگزار ہیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-