آنکھوں والا قانون

امریکہ کے صدر ٹرمپ کے سات اسلامی ملکوں پر بین کو وفاقی عدالت کے ایک عام سے جج “جیمز رابرٹ” نے معطل کر دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسکے خلاف اپیل کی اور وہ اپیل بھی انکے منہ پر واپس دے ماری گئ۔ یہ ہوتا ہے قانون اور ایسی ہوتی ہے قانون کی طاقت!!! ٹرمپ نے جج اور وفاقی عدالت کو بالواسطہ بھیانک نتائج کی دھمکیاں دیں مگر کسی نے ان گیدڑ بھبھکیوں پر کان نہ دھرا۔ اب ٹرمپ صاحب سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔ انصاف اور انسانیت کی خاطرامریکی عوام اور 100 بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں جن میں فیس بُک، ایپل ، اُوبر شامل ہیں امریکی “مہاجرین” کے ساتھ ہیں۔ “غیروں” کے لئے صدر ٹرمپ سے “پنگے”!!!، کیا باٹا، میاں منشا، بحریہ ٹاؤن ، داؤدز یا شوگر مل مافیا کبھی “جنابِ وزیراعظم” سے عوام کے لئے یا انصاف کے لئے ٹکرا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!!!
جب بُکل میں (ٹیکس) چور ہو تو لوگ بُکل مار کر بیٹھے رہتے ہیں، نہ بولتے ہیں ، نہ ہلتےہیں!!!!

ہماری پاک سر زمین کا شاید “پیدائش”سے ہی انصاف کے ساتھ “چھتیس کا آکڑا” چل رہا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے کرشماتی لیڈر تک نے “روٹی کپڑا مکان” کا جھانسہ تو دیا لیکن انصاف کی بات نہ کی، حالانکہ اگر انصاف کا نظام رائج ہو جائے تو روٹی، کپڑا اور مکان خودبخود عام آدمی کے ہاتھ کی لکیر بن جائیں گے۔ فریب اور دھوکے کی طاقت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ اس وعدے پر یقین کرنے والوں کی اب تیسری نسل غربت کی چکی میں پس کر مر رہی ہے لیکن روٹی کپڑا اور مکان کے محض خواب دکھانے والا مر کر بھی آج تک “زندہ ہے”۔

دانشوارانِ وطن بے حسی کے طعنوں کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے دبے لفظوں میں پاکستانی عوام کو بے غیرت تک کہہ جاتے ہیں لیکن یہ “بے غیرت” وقت آنے پر ایک چیف جسٹس کے حق کی خاطر حاضر سروس آرمی چیف سے ٹکرا گئے تھے۔ جولائی کی ہلاکت خیز گرمی میں سڑکیں انصاف کیلئے لڑنے والوں سے بھر گئ تھیں اور انکے برسائے ہوئے پھولوں سے لد گئ تھیں لیکن وہ چیف صاحب بیٹے کی کرپشن کے سامنے لسّی کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ انکے بعد آنے والے چیف جسٹس جیلانی صاحب کو ہم نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب میں دعوت دی اور پوچھا کہ “فوری انصاف کیوں نہیں ملتا؟” پینتالیس منٹ کی تقریر میں جواب آیا کہ سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا۔ اب یہ سسٹم ہے کیا اور کون ٹھیک کریگا؟ نا نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی!!! انکے بعد آنے والے ایک کیریکٹر چیف جسٹس سے زیادہ مبلغ، واعظ اور عدلیہ کے “سپوکس مین” تھے۔

ٹرمپ کا کیس بھی سپریم کورٹ میں ہے اور پاناما لیکس کا بھی۔ تو آؤ دعا کریں کہ الّلہ تعالیٰ امریکی سپریم کورٹ میں بھی ایسا “فرض شناس” جج تعینات کرے جو دسمبر تک یہ کیس کھینچ کر لے جائے اور پھر ایک دم ریٹائرڈ ہو جائے اور نئ ٹیم نئے سرے سے کیس شروع کرے تو کوئی جج دودھ میں مچھلی ڈبو کر کھائے اور بیمار ہو جائے۔
لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ امریکی سپریم کورٹ فوری انصاف دے گی۔ یہاں قانون اندھا نہیں بلکہ دیکھتا ہے اور سوچتا سمجھتا بھی ہے۔ تین سو سال سے امریکہ میں لگے انصاف کے درخت کی جڑیں اتنی گہرائی تک پھیل گئ ہیں اور موسموں کے ستم سہتا یہ درخت اتنا مضبوط بن چکا ہے کہ ٹرمپ جیسے لوگ اسکا پتا تک نہیں اکھاڑ سکتے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اس درخت پر “پینگ” ڈال کر جھولے لے سکتا ہے تو ضرور لے اور انجوائے کرے۔
انصاف زندہ باد!!!!!

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *