بچپن میں جو پہلا گیت زبان پر چڑھا وہ “دل دل پاکستان” تھا۔ گیت کا مکھڑا تو سکون سے پڑھا جاتا لیکن جب انترے تک پہنچتا تو “دل دل پاکستان” اتنے جوش اور چیخ کے ساتھ نکلتا کہ اگلےدن اسکول میں “گلا بیٹھنے” کا الزام کچے بیروں کو جاتا۔ یہ جنید جمشید سے پہلا تعارف تھا، پہلا لگاؤ تھا، پہلی فین فالونگ تھی۔ وہ واحد پاکستانی سنگر تھا جو عزت اور شہرت کی ان بلندیوں کو چھو سکا۔
بہت سے فلمی ستاروں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے لیکن خواہش کے باوجود جنید جمشید سے ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ اُس نے کنسرٹس پرجانا چھوڑ دیا اور ہم نے تبلیغی اجتماع میں ۔ بھلا ہو ناظمہ خان کا کہ اس نے کلیولینڈ، اوہائیو میں جنید جمشید کے لئے “The Citizens Foundation”کے تحت فنڈریزنگ کا اہتمام کیا اور ہمیں بھی اس کارِخیر میں شامل ہونے اور جنید جمشید سے ملنے کا موقع فراہم کیا۔ کیا خوبصورت انسان تھا۔ اس سےمل کر ایک خوشبو سی بدن میں اتر گئ۔ فنڈ ریزنگ کے دوران وہ حاضرین کی پرزور فرمائش پر “دل دل پاکستان” بھی سناتا رہا۔ کیسے آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اُسکی یہ گاتے ہوئے!!!
اعلیٰ تعلیم، بے پناہ وجاہت، نظروں کو خیرہ کر دینے والے اسٹارڈم کے ساتھ وہ ہر دل کی دھڑکن تھا اور “بھریا میلہ” بھری جوانی میں چھوڑ کر وہ الّلہ کے راستے پر لگ گیا۔ لیکن ہمارے منافق معاشرے نے سمجھا کہ شاید اسکا “نیا جنم” ہوا ہے اس لئے اسکا ہر عمل تنقید کی چھلنی سے گُزرنے لگا۔ لوگ بھول گئے کہ سالہا سال ایک “کھلےڈُلے” ماحول میں وقت گزارنے کے بعد اسکا دل بدلا ہے لیکن رویے بدلتے وقت لگے گا۔ اگر کسی کے ساتھ سیلفی لے لی ہے تو “حلال سیلفی” کہہ کر تمسخر اُڑایا گیا، اگر اسٹیج پر پرانے گلوکار یاروں کے ساتھ ویسے ہی کھڑا ہو گیا تو “حلال کنسرٹ” اور اگر کسی تقریب میں منعقد کیا گیا جہاں اسکے علم میں لائے بغیر کوئی رقص ہو گیا تو وہ “حلال ڈانس”کہہ کر سنگ باری کی گئ۔ اب پتا نہیں کہ مہندی اور شادی پر جو ہم سب خوشیاں اور جشن مناتے ہیں اور رقص کرتے ہیں وہ “حلال” ہوتا ہے یا نہیں؟؟؟؟
جس انسان کو ہر عمر، طبقے اور مذہب کا آدمی محبت کرتا تھا، راہِ حق میں آنے کے بعد تقریباً ہر فرقے کے لوگ اس سے خار کھانے لگے۔باقی فرقے تو دور اسکے اپنے فرقے کے کئ لوگوں کی “روزی روٹی” جنید کی کشش سے متاثر ہونے لگی حالانکہ اس شاندار انسان نے کبھی کسی فرقے کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ دیوبندیوں کی تعلیمات، بریلویوں کی نعتوں اور اہلِ تشیع کے مرثیوں کا علمبردار تھا یہ شخص۔ “لبرلز” یا آزاد خیال، جو اسکے گانوں پر “ٹُن ہو کر” جھومتے تھے اسکا ٹھٹھہ آڑانے لگے۔ جنید جمشید کی زبان کی ایک لغزش کا موقع فائدہ آٹھاتے ہوئے، ایک اینکر جو منہ میں آم ٹھونسنے اور آف کیمرہ واہیات گفتگو کرنے سےمشہور ہے، نے ٹی وی پر بھرے شو میں جنید جمشید کی والدہ کو گالی دی لیکن اس بھلے آدمی نے اسکا جواب نہیں دیا۔ اگر کسی “مولوی صاحب” کا ذریعہ آمدنی معلوم نہ ہو تو وہ “حرام خور” یا چندہ کھانے والا اور اگر وہ کُرتے بیچے تو پیسوں کا لالچی تاجر کہلائے!!!کبھی الزام لگانے والا اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھ لے تو ایسا ہرگز نہ کرے۔
لوگوں کو رونق میلے اور عیش کی زندگی کو
ترک کرنے کی تبلیغ کے ذریعے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی طرف لانا، ایک انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ طالبان اور داعش کی “مہربانی” سے لوگ ویسے ہی سنت داڑھی اور اونچی شلواروں والوں سے دور ہٹنے لگے ہیں تو ایسے میں لوگوں کے محبوب اداکار اور گلوکار یا کرکٹرز کی کشش تبلیغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن جنید جمشید کی انھی تکلیفوں اور مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے “علی حیدر”واپس اپنے راستے پر لوٹ گیا ہے۔ ہر سال امریکہ ہمارے فنکشنز میں آتا ہے اور ڈالرز کماتا ہے۔ وہ بھی خوش، لبرلز اور مذہبی فرقے بھی خوش۔رہے نام الّلہ کا
جنید جمشید نہیں رہا لیکن اسکا اثر، اسکی تعلیمات، اُسکا محبت، رواداری اور رزقِ حلال کمانے، کھانے اور کھلانے کا پیغام زندہ ہے اور رہے گا۔ اسکی تبلیغی خدمات مشعلِ راہ ہیں اور رہیں گی۔ وہ ہمیشہ ہماری دعاؤں میں شامل رہے گا۔ اسکے چاہنے والے اسکی تعلیمات اور تبلیغ کی وراثت کے امین ہیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ