امریکہ میں سمندری طوفان اور پاکستانی کمیونٹی

خطِ استوا کے دونوں اطراف اگر متوازی لکیریں کھینچیں تو اس حصّے کو ٹراپیکل کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں سورج زمین کے عین اوپر ہوتا ہے اور موسم عموماً گرم رہتا ہے۔ بحرِ اوقیانوس کے ٹراپیکل حصے اور مشرقی بحر الکاہل میں موسمِ خزاں کے آغاز میں سمندری طوفان آسکتے ہیں جنھیں “ہریکین” (Hurricane) یا “ٹراپیکل سائیکلون” کہتے ہیں۔ سمندر کا پانی گرم ہونے کے باعث آبی بخارات اور ہوا مل کر بادل بناتے ہیں اور یہ بادل گرم سمندر کے اوپر چلتے چلتے مزید ہوا اور آبی بخارات کھینچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک طاقتور اور خوفناک بگولے کی شکل لے لیتے ہیں ۔ اس بگولے کے مرکز کو “آنکھ” کہا جاتا ہے اور اسکے گھومنے کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ تک چلی جاتی ہے۔ اب اس تیزی سے گھومتے طوفان کی زد میں جو بھی چیز آتی ہے وہ تنکے کی طرح اُڑ یا بہہ جاتی ہے، پورے کے پورے گھر اٹھا کر میلوں دور پھینک دیتی ہے۔ شہر کے شہر خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ جوں جوں یہ سمندری طوفان خشکی یا سرد پانی کی طرف جاتا ہے دم توڑتا جاتا ہے۔

سالِ رواں “ہریکین” کے حوالے سے امریکہ کے لئے بدقسمت ترین سال رہا۔ ماہِ اگست کے وسط میں امریکہ کی تاریخ کے تیسرے بڑے خوفناک سمندری طوفان “ہاروی” نے ریاست ٹیکساس کے ہنستے بستے شہر ہیوسٹن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قصبے کے قصبے تباہ ہوگئے۔ ایک سو کے قریب لوگ جاں بحق اور تیس ہزار سے زائد بے گھر ہوگئے۔ نقصان کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا۔ کاروبارِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔ سانپ بچھو اور مگر مچھ لوگوں کے گھروں کے اندر پہنچ گئے۔ اگست کے آخر تک جب “ہاروی” کو چین آیا تو ایک نئ مصیبت انتظار کر رہی تھی۔ فلوریڈا بالخصوص میامی اور “کی ویسٹ” کے علاقے میں “ارما” نام کے سمندری طوفان نے آفت مچا دی۔ ایک سو نو لوگ جاں بحق اور پینسٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہزاروں لوگ در بدر ہو گئے۔ چند دنوں میں “ارما” نرم ہوا تو “ماریہ” نامی طوفان نے کریبین میں تباہی مچا دی۔ جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے، سات لوگ “ماریہ” کا شکار ہوکر موت کے مُنہ میں جا چُکے ہیں اور یہ 155 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے عفریت کی طرح آگے بڑھ رہا ہے۔

یہ خوفناک طوفان جہاں اتنی مصیبتیں لائے، وہاں انسانوں کو ایک ہونے کا موقع بھی دیا تاکہ ان طوفانوں کا مل کر مقابلہ کر سکیں۔ ایک فوڈ چین نے کشتی کے ذریعے بے گھروں یا اپنے گھروں میں مُقید لوگوں کو مُفت پیزا اور کھانا فراہم کرنا شروع کردیا، گرجے اور مساجد ہر مذہب کے بے گھر لوگوں کے لئے پناہ گاہ بن گئے۔ محفوظ رہ جانے والے لوگ اپنے گھروں سے کمبل، رضائیاں، بستر اور برتن اٹھا لائے تاکہ مساجد اور گرجوں میں رہائش پذیر بے گھروں کے کام آسکیم ۔ طوفان کے پانی نے انسانیت پر پڑی تفرقے کی گرد کو دھو دیا۔ امریکی نظام کے تو کیا ہی کہنے کہ وہ طوفان کی وارننگ ملتے ہی تیار تھے، اپنے پاکستانیوں نے بھی کمال کر دیا۔ ٹیکساس کے طاہر جاوید کا ذکر ضروری ہے جو “ہاروی” کی آمد سے آج تک بحالی کے کاموں کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ اسلامی تنظیم “اکنا” بھی اس خدمت میں پیش پیش ہے۔

ہماری ڈاکٹروں کی تنظیم “اپنا” ان طوفانوں کے دوران “گُفتار کی غازی” رہی ہے۔ سوائے ای میلوں کے اور دس ہزار ڈالر کے چندے کے کوئی نمایاں کام نظر نہیں آتا۔ تنظیم کے سربراہ، ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین یا متعلقہ کمیٹییوں کے ذمہ داران نہ تو ہیوسٹن یا فلوریڈا گئے اور نہ ہی کسی بحالی کے کام کو شروع کیا۔ ہیوسٹن میں ہی موجود چند ڈاکٹر حضرات جو ذاتی حیثیت میں اپنے شہر کے لئے کام کر رہے تھے اور یہ ان کا فرض تھا، اُن پر “اپنا” کا بیج لگا دیا گیا گویا کہ اگر خدانخواستہ سراج الحق صاحب کا گھر سیلاب کی زد میں آ جائے اور وہ اپنے بچے باہر نکال رہے ہوں تو جماعتِ اسلامی کریڈٹ لینے کے لئےاشتہار لگا دے، “جماعتِ اسلامی سیلاب زدگان کی مدد کرتے ہوئے”۔ ڈاکٹر یعقوب شیخ, ڈاکٹر شاہد حسنین اور دیگر نے ذاتی حیثیت میں طوفان سے متاثرین کے لئے قابلِ ذکر خدمات سرانجام دیں۔

قوموں اور تنظیموں کی پہچان مُشکل وقت میں ہوتی ہے۔ آج امریکہ کی عوام مُشکل میں ہے۔ پاکستانی کمیونٹی خصوصاً ڈاکٹر کمیونٹی کو اپنا فرض بھی پورا کرنا ہے اور حق بھی ادا کرنا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دسمبر میں لاہور میں ہونے والی پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی میٹنگ ہیوسٹن یا فلوریڈا میں مُنتقل کردی جائے۔ میٹنگ سادگی اور بچت سے ہو اور ساری کمائی ہریکین کے متاثرین کے لئے وقف کرتے ہوئے کسی ایک قصبے کی کم از کم جُزوی بحالی کی ذمہ داری لے لی جائے۔ پاکستان میں میٹنگ کا مقصد ویسے بھی “تاجپوشی” یا تین ہزار ڈاکٹروں کے فنڈ سے کی گئ پاکستان کی خدمت کا خراج کسی ایک “فرد واحد” نے وصول کرنا ہوتا ہے اور اس خراج کی وصولی کے بغیر بھی سارے پراجیکٹس یونہی چلتے رہیں گے؛ لیکن امریکی تاریخ یاد رکھے گی کہ پاکستانیوں کا ایک گروہ تھا جو انکے اجڑے گھر آباد کر رہا تھا۔ اور جن کے گھر آباد ہونگے وہ جواباً صرف دعا دینے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنے محسنوں کے لئے کسی بھی ٹرمپ کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے والا گروہ یا انسان ہی کمیونٹی کا لیڈر کہلاتا ہے۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *