اپنا حق اپنے ہاتھ میں رکھ

ریاض احمد ایک ایماندار ریٹائرڈ سرکاری افسر ہے۔ غیاث احمد اسکی واحد اولاد ہے۔ ریاض احمد نے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنایا اور بیٹا امریکہ میں ایک بڑا ڈاکٹر ہے۔ ریاض احمد کی ساری جمع پونجی یا تو بیٹے پر خرچ ہوئی یا اسکی بیوی نے بھلے وقتوں میں زیور بیچ کر اور کمیٹیاں ڈال کر ڈیفنس میں ایک کنال کا پلاٹ لے لیا جسے آہستہ آہستہ ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے انھوں نے تعمیر کر لیا۔ ڈاکٹر بیٹے کے لئے بڑے گھروں کے رشتے چھوڑ کر ایک عام سیےگھر کی لڑکی سے شادی کی تاکہ بڑھاپا سکھ سے گزر سکے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر غیاث اپنی تیس ہزار ڈالر ماہانہ آمدنی میں سے ایک ہزار ڈالر گھر بھیجتا ہے وہ بھی پوری دنیا کو سُنا کر۔ جب ریاض احمد درخواست کرتا ہے کہ پوتے پوتیوں کو مِلوانےپاکستان لے آؤ تو بدتمیز بہو تنک کر جواب دیتی ہے کہ “دس بارہ لاکھ کا خرچہ ہر سال نہیں ہوتا ہم سے۔ پیسے درختوں پر نہیں لگتے۔ کماتے ہوتے تو پتا ہوتا، گھر بیٹھے جو پیسےمل جاتے ہیں”!!! اگر ریاض احمد کسی غریب رشتہ دار یا مستحق طالب علم کی مدد کرنا چاہے تو ہاتھ تنگ۔ اسکی اپنی معمولی سی پینشن بیوہ بہن کے کام آجاتی ہے۔

مختارگُجر چار ایکڑ کا مالک اور اسکے ساتھ ساتھ گائے بھینسوں کا دودھ بیچتا تھا۔ تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو پالا، تعلیم دلوائی اور اپنی محنت کی کمائی سے سب کی شادیاں کیں۔ شادی ہوتے ہی ہر بچہ الگ ہو گیا۔ مختار کی انا کو گوارا نہیں تھا کہ بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا اس لئے محنت مزدوری سے زندگی بسر کرتا رہا۔ اس دوران اسے دل کی تکلیف ہوگئ اور ڈاکٹروں نے کہا کہ آپریشن ہوگا اور دس لاکھ روپےخرچہ بتایا۔ مختار کی بیوی نے بچوں کی منتیں کرلیں لیکن ہر کسی نے خالی جیب اُلٹ کر دکھا دی۔ مختار علاج کے بغیر فوت ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اپنی اولاد کے رویے کا دکھ موت سے پہلے موت لے آیا۔

یہ بلکل سچے واقعات ہیں (گو کہ نام اور پیشے بدل دئے گئے ہیں)- اب اگر آپ چاہئیں تو ریاض اور مختار کے بچوں کو گالیاں دے سکتے ہیں۔ “باغبان” فلم کا ماحول بنا سکتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ صدیوں سے یہ لعن طعن چلی آرہی ہے۔ جس نے ماں باپ کا خیال رکھنا ہے اس نے لعن طعن کے بغیر رکھنا ہے اور جس نے ماں باپ تک کی پرواہ نہ کی، طعن و تشنیع اسکا کیا بگاڑ لے گی۔

آئیں ان کو اور طرح حل کرتے ہیں۔

ریاض احمد کا ڈیفنس میں گھر کم از کم پانچ کروڑ کا ہے اور اس نے سوچا ہے کہ مرنے کے بعد وہ غیاث کو مل جائے گا۔ اگر وہ بیٹے اور بہو کے رویے کو دیکھتے ہوئے وراثت کے جذبات کو ذرا سائیڈ پر رکھ دے اور اس گھر کو بیچ کر ان پانچ کروڑ کو بینک (یا اسلامی بینک) میں رکھ دے تو اسے لگ بھگ پانچ لاکھ روپے ماہانہ ملیں گے۔ اپنا ہی گھر واپس ایک لاکھ روپیہ ماہانہ کرائے پر لے کر باقی چار لاکھ سے عیش کی بقیہ زندگی گُزارے اور جس کی چاہے مدد کرے- بیٹے، بہو اور پوتے پوتیوں کو ملنے کے لئے ہر سال دس لاکھ روپے کے ٹکٹ اپنی جیب سے بھیجے اور دیکھے کہ خود غرض بہو کیسے “ابا جی ابا جی” کرتی پھرتی ہے۔ جب عزت پیسے سے ہی ملنی ہےتو اپنا پیسہ اپنی زندگی میں ہی خرچ کرے، کیسی وراثت؟؟؟جو وارث بننے کا رشتہ نبھانے کا اہل نہیں وہ وراثت کا بھی حقدار نہیں۔وصیت بھی بیٹے بہو کے رویے کے مطابق لکھے۔

اب آتے ہیں مختار احمد کی طرف!!! اسکے چار ایکڑ کم از کم اسی لاکھ روپے کے ہیں اور اگر پاس سے سڑک گزر گئ تو ایک کروڑ کا اضافہ اور کرلیں۔ اسی لاکھ میں سے اگر بیس لاکھ بھی اپنی بیماری پر خرچ کرے اور باقی ساٹھ لاکھ بینک (یا اسلامی بینک) میں رکھ دے تو اسے پچاس سے ساٹھ ہزار روپے ماہانہ آمدنی ہو سکتی ہے جس سے وہ بیوی کے ساتھ سکون سے بڑھاپا گزار سکتا ہے۔ اسکے مطلبی بچوں کا بھی جب “اچھی روٹی” کھانے کو دل کرے گا تو ماں باپ کے گھر بھاگیں گے۔

جنگل کا قانون ہے کہ جب شیر بوڑھا یا بیمار پڑجاتا ہےتو ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرتا ہے۔ اسکی اولاد اپنے لئے یا اپنے ننھے بچوں کے لئے تو شکار کرتی ہے، ماں باپ کیلئے نہیں۔ جب وسائل کم ہوں اور ضروریات زیادہ یا پھر نیت میں لالچ اور بخیلی ہو تو بہت سے انسان نظر آنے والے جانور اپنے چہرے پر سے انسانوں والا نقاب اتار کر اصلی چہرہ دیتے ہیں۔ یہ ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنی کمائی میں سے ایسے پس انداز کرے کہ بُرے وقت میں اولاد سمیت کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔ آپکی اولاد کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ آپکی کمائی آپکی اپنی ملکیت ہے اور آپ چاہئیں تو اولاد کو دیں اور چاہئیں تو اسے شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کر دیں۔ اولاد کو “سب تیرا ہی تو ہے” کہنا اخباروں کی روز کی ان سرخیوں کو جنم دیتا ہے کہ “بیٹے نے جائیداد کے تنازع پر باپ کو قتل کر دیا” وغیرہ وغیرہ۔ آپکے مرنے کے بعد آپکی وصیت میں پتا چلنا چاہئیے کہ کس کو کیا مِلنا ہے، جو اچھا سلوک کرے اسے اچھا حصہ اور جو بُرا کرے، وہ فارغ۔ اگر زندگی میں ہی اولاد کو سب کچھ دے کر خالی ہاتھ ہوگئے تو براہِ مہربانی ایک کٹورا یا کشکول ضرور سنبھال کر رکھ لینا، کام آئےگا!!!

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *