بائیکاٹ

“لارڈ ارنی”، آئرلینڈ کی “میو کاؤنٹی” کا بہت بڑا جاگیردار تھا اور “کیپٹن چارلس بائیکاٹ” اُسکا خاص آدمی تھا جو کہ ساری جاگیر کا انتظام سنبھالتا تھا۔ سن 1880 میں کسانوں کی فصلوں کی پیداوار بہت کم ہوئی تو کسانوں نے لارڈ سے درخواست کی کہ زمینوں کے اس سال کے ٹھیکے میں پچیس فیصد رعایت کر دی جائے مگر لارڈ نہ مانا۔ کسانوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ لارڈ کی زمینوں پر کام نہیں کریں گے۔ یہ مہم زور پکڑ گئ یہاں تک کہ کسانوں کے بعد لارڈ کے اصطبل کے ملازمین اور مقامی تاجر حتی کہ ڈاکیے بھی اس مہم میں شامل ہوگئے اور کام چھوڑ دیا۔ کیپٹن چارلس نے دوسرے علاقوں سے کسان بُلائے اور اُنکی حفاظت کے لئے ایک ہزار کے لگ بھگ پولیس اور فوجی بُلوائے لیکن یہ قدم انتہائی مہنگا ثابت ہوا اور فصل کی کمائی سے زیادہ خرچہ سیکیورٹی پر ہوگیا۔ چونکہ اس سارے عمل میں اصلی ظالم یا “ولن” لارڈ کا “بہوبلی” کیپٹین چارلس بائیکاٹ تھا اس لئے کسانوں کے نافرمانی کے ان اقدام کو “بائیکاٹ” کا نام دیا گیا اور “نیویارک ٹریبیون اور دی ٹائمز جیسے اخباروں نے اس سال ایسی تمام نافرمانیوں کو “بائیکاٹ” کا نام دیا۔ آج کی مہذب دُنیا میں “بائیکاٹ” کسی بھی ظُلم اور ناانصافی کے خلاف سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے جس کے آگے کمپنیاں تو کیا حکومتیں تک گھنٹنے ٹیک دیتی ہیں۔

تاریخ بڑےبڑے بائیکاٹوں سے بھری پڑی ہے لیکن ایک دلچسپ بائیکاٹ “نیسلے” کا ہے جو جولائی 1977 سے شروع ہوا اور تقریباً چالیس سال سے جاری ہے۔ یہ بائیکاٹ “نیسلے” کے دودھ کو ماں کے دودھ کا متبادل ظاہر کرنے پر شروع ہوا۔ اس چالیس سالہ دورانیے میں کبھی کبھار یہ بائیکاٹ مشروط طور پر ختم بھی ہوا لیکن جونہی “نیسلے” نے انحراف کیا یہ بائیکاٹ دوبارہ شروع ہوگیا۔ اسی طرح ایک اور اہم مثال ہم جنس پرستوں کی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہم جنس پرستوں کا اتحاد اور یگانگت بڑھی ہے اور وہ ہر اس اسٹور یا ریسٹورنٹ کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں جو ہم جنس پرستی کے خلاف مہم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ بنے۔

رمضان المُبارک کے شروع میں پاکستان میں ہمیشہ کی طرح پھل مہنگے ہوئے۔ اس مہنگائی کی وجہ سے عوام کو معاشی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ مہنگائی کا ذمہ دار، پھل فروش کی بجائے سبزی منڈی کا آڑھتی ہے لیکن لوگ قصوروار پھل فروش کو سمجھتے ہیں کیونکہ سودے بازی اور مُنہ ماری اسی سے ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سوشل میڈیا پر تحریک چلی کہ ان مہنگے پھلوں کا تین دن کے لئے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ کراچی سے شروع ہونے والی یہ تحریک پنجاب تک پہنچی اور اس بائیکاٹ کے نتیجے میں دو دنوں میں پھل سستے ہوگئے۔ اس تحریک میں شامل ہر پاکستانی مبارکباد کا مستحق ہے۔ تبدیلی ضروری نہیں کہ خیبر پختون خواہ سے آئے؛ بلکہ یہ “بائیکاٹ” وہ تبدیلی ہے جسے دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ “تبدیلی آگئ ہے”۔

یہ بائیکاٹ ایک تربیت ہے، ایک “ایکسرسائز” ہے بڑے بائیکاٹ کی۔ یاد رہے کہ وکلا نے بھی ایسے چھوٹے بائیکاٹ کرکے وہ یگانگی اور مہارت پیدا کی کہ مُشرف جیسے “ڈرتا ورتا نہیں ہوں” کو ناکوں چنے چبوا دئے اور زرداری کو بھی نہ چاہتے ہوئے وکلا کی بائیکاٹ کی طاقت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اب جبکہ قوم کو اندازہ ہوگیا ہے کہ پھل کھائے بغیر بھی زندہ اور خوش رہا جا سکتا ہے، اگلا ٹارگٹ ہونا چاہئے چینی کا بائیکاٹ اور وہ بھی کم ازکم چند مہینوں کے لئے۔ “شریفین” سے لیکر زرداری تک اور جہانگیر ترین سے لے کر ذوالفقار مرزا تک، سب کی بے ایمانی کی طاقت شوگرملوں سے ہے۔ جب چینی کا بائیکاٹ ہوگا تو عوام کو شوگر اور دیگر امراض سے افاقہ ہوگا جبکہ بے ایمانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اسکے بعد سوشل بائیکاٹ کا مرحلہ آسکتا ہے، رشوت خور، ملاوٹ خور، قبضہ گروپ، کچی شراب کی بھٹیاں چلا کر لوگوں کو مارنے والے، سیاستدانوں کےدلال؛ ان سب کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جہیز لینے والوں کا بائیکاٹ بہت ضروری ہے۔ کسی بھی بڑی لڑائی کو جیتنے کے لئے تربیت ضروری ہے، قوم کے “جنگجوؤں” کو سماجی دشمن سے جنگ کی شروعات اور پہلی جیت مُبارک ہو۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *