“ٹائیگر زندہ ہے، ہندی فلم “اک تھا ٹائیگر” کا سیکیول ہے۔ پچھلے ہفتے اس کا ٹریلر ریلیز کیا گیا۔ پہلی فلم کے برعکس اس فلم میں را کا ایجنٹ (سلمان خان) اور آئی ایس آئی کی ایجنٹ (کترینہ کیف) مل کر انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سنت داڑھی اور اسلامی لبادے میں ملبوس اسلامی “دہشتگردوں” کے “را کا ایجنٹ” چھکے چھڑوا رہا ہے اور ٹریلر کے کمنٹس میں ہزاروں پاکستانی اور انڈین نوجوان پرجوش انداز میں ہیرو کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ بہت عرصے کے بعد یہ فلمی بھائی چارہ دیکھنے میں آیا ہے ورنہ “فینٹم” جیسی فلموں میں تو فریقین نے گالیوں اور طعن و تشنیع کی جنگِ عظیم سوئم برپا کردی تھی۔ میں ذاتی طور پر اس (وقتی ہی سہی) بھائی چارے سے خوش ہوں کیونکہ اس خطے میں مقابلہ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ موسم، آفات، بڑھتی آبادی اور پانی کی کمی سے ہے۔ اگست میں لکھا گیا کالم “1947 سے 2087 تک” بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ادھر لاہور اور ادھر دہلی کے اسپتال اسموگ کے باعث سانس کی بیماریوں کے مریضوں سے بھر چُکے ہیں۔ تاہم دیکھتے ہیں کہ کسی فلم میں یہ دونوں مل کر ان فوجیوں کو بھی ماریں گے جو کشمیر میں نوجوان لڑکیوں کو ایسے ہی اٹھا کر کے جاتے ہیں جیسے فلم میں مسلمان دہشتگرد نرسوں کو۔
“ٹائیگر زندہ ہے” پر مسلمان دہشتگردوں کے حشر نشر پر پاکستانیوں کی خوشی دیکھ کر “سنی دیول” یاد آتا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں کچھ سال پہلے تک جب وہ دانت کچکچاتے ہوئے مسلمان “اُگروادیوں” یا “آتنک وادیوں”کے کشتوں کے پُشتے لگاتا تھا تو ہمارے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی تھی۔ لاہور میں نوکری کے دوران ایک بار انگلینڈ کی ایک فیملی اپنے ایک فرد کے نشے کا علاج کروانے لاہور آئی تو ان میں سے ایک نوجوان نے بتایا کہ سنی دیول کسی کنسرٹ یا شوٹنگ کے لیے انگلینڈ آرہا ہے، اور اس نوجوان کے دوستوں کا پلان ہے کہ اسے مارا پیٹا جائے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو جواب دیا جیسی بدتمیزی اور دُشمنی وہ مسلمانوں کے ساتھ دکھاتا ہے، اُسے مارنے کو دل کرتا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ایک چپیڑ میری طرف سے بھی لگا دینا۔ آج ہم انھی مسلمان “دہشتگردوں” کے ایک انڈین ہیرو سے پٹنے سے خوش ہیں۔ یہ ہوتا ہے بدلتا بیانیہ (narrative) اور یہ ہوتی ہے اسکی طاقت۔
ایسا ہی ایک بیانیہ 1980-1979میں لکھا گیا تھا جب روس کی افغانستان پر چڑھائی کو جغرافیائی جنگ سے نکال کر جہاد بنا دیا گیا تھا۔ کتاب سائیلنٹ سولجر (خاموش سپاہی) کے مطابق یہ جنرل اختر عبدالرحمن کا کارنامہ تھا جس نے پوری دنیا سے جہاد کے نام پر کم سن نوجوان ریکروٹ کئے۔ وہ مولوی جنھیں اس جہاد سے پہلے گیارہویں شریف کی ختم اور نکاح کے علاوہ کوئی نہیں پوچھتا تھا، یکایک اس “جہاد” میں اسٹیک ہولڈرز بن گئے؛ عزت، اہمیت، دولت، امریکی ویزے اور گوریوں سے (عارضی) نکاح میسر ہوئے تو جہادی فتوے، لیکچر ہال کے باہر پڑی حاضری شیٹ بن گئے کہ جو چاہے جس کی چاہے پراکسی لگا دے۔ سولہ سترہ سالہ ازبک، لبنانی، شامی، سوڈانی اور دیگر ممالک سے نوجوان جہاد کے جذبے سے سرشار آئے اور انکے دماغ حوروں اور جنت کے خوابوں سے بھر دئیے گیے۔ شاید آپ کو علم ہو یا ناں کہ اگر کوئی بڑی عمر کا مرد یا عورت اٹھارہ سال کے کم عمر لڑکے یا لڑکی سے اس کی بقائمِ ہوش و حواس اجازت کے ساتھ بھی جنسی تعلق قائم کرے تو قانونی اعتبار سے یہ ریپ (statuary rape) کہلاتا ہے، تو ان کم عمر بچوں کو “مجاہدین”بنانے کے لئے انکے دماغوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا کیا وہ “ذہنی ریپ” سے کم تھا؟ چلیں مانا کہ ہوسکتا ہے کہ جنرل نے یا مُفتی صاحبان نے یہ اس زمانے کے حالات کے مُطابق پاک سر زمین کے عظیم تر مفاد میں کیا ہو لیکن جن دنوں جنرل صاحب نابالغ مجاہدین کا دماغی “یون شوشن” کررہے تھے تاکہ وہ مذہب اور قوم کے نام پر جان دے سکیں، انکا اپنا اکیس سالہ ہمایوں اختر خان کینیڈا میں ایکچورئل سائنس اور بزنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا تھا اور اور آج لگ بھگ چالیس سال کے بعد بھی شاید آپکو نہ پتا ہو کہ “ایکچوریل سائنس” کیا بلا ہے تو آپ اندازہ لگا لیں کہ اپنے بچوں کے لئے کتنی دور رس اور جدید اپروچ تھی؛ انکے باقی بر خوردارں میں سے بھی کسی نے بھی جہاد یا جنت اور حوروں کی راہ نہیں اپنائی؛ وہ سب دنیاوی جنت اور دیسی حوروں کے چکر میں تھے اسی لئے اپنی کتاب “سائیلنٹ سولجر” میں غربت کے باعث بارہ میل پیدل چل کر اسکول جانے والے جنرل اختر عبدالرحمن کے بچے آج کھرب پتی ہیں۔ یہی حال “مرد مومن مرد حق” اور دیگر جرنیلوں کا ہے۔ سب کے بچے ہمیں امریکہ میں ہی ملتے ہیں، کبھی کارگل یا افغانستان میں جان دینے کی خبر نہیں سُنی۔
نائن الیون کے بعد ایک کمانڈو جرنیل نے پھر بیانیہ بدلا تو “اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم” کے ہاتھوں اپنے پچاس ہزار لوگ مروا لیے اور ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمیں ان دہشتگردوں سے کوئی ہمدردی نہیں جو ہمارے معصوم لوگوں کو ماریں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری ان سے جان چھٹ جائے گی یا “کہیں اور”، “کوئی اور” بیانیہ لکھا جارہا ہے؟ کیا اب بیانیہ لکھنے کی ذمہ داری اہل لوگوں کو دی جائے گی یا کیا آج بھی چند طاقتیں، مخصوص شخصیات کے فتوں اور بیانات کو آجکل کے حالات کے مطابق “اپ ڈیٹ” کرکے استعمال کریں گی؟ کیا جاہلوں کو دی گئ بے پناہ طاقت اور انکے سیدھے سادھے، معصوم پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو وقتاً فوقتاً بھڑکا کر بیانیہ لکھا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو یہ تنگ مغز لوگ، ناقابلِ کنٹرول بھی ہوسکتے ہیں اور اگر یہ عناصر اپنی حد سے نکلے تو اس بار بیانیہ دنیا لکھے گی، ہماری تقدیر پر!!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ