گلوریا اسٹینم امریکی صحافی اور حقوقِ نسواں کی علمبردار ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جن چند گنےچُنےصحافیوں نے خواتین کے حقوق کے لئے آواز بُلند کی، گلوریا ان میں سرفہرست ہیں۔ چند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ، گلوریا نے 2005 میں اپنے “ویمن میڈیا سنٹر” کی بنیاد رکھی جس کا مقصد خواتین کے حقوق کو نمایاں کرنا اور میڈیا میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا ہے۔ گلوریا اسٹینم کا ایک قول بہت مقبول ہوا کہ،
“ہم نے اپنی بیٹیوں کی پرورش تو بیٹوں
کی طرح کرنی شروع کر دی ہے لیکن بہت
کم لوگوں میں یہ ہمت ہے کہ اپنے بیٹوں
کی پرورش بیٹیوں کی طرح کریں”۔
اس بیان پر بہت لے دے بھی ہوئی کیونکہ کون بیٹوں کی پرورش بیٹیوں کی طرح چاہے گا، لیکن گلوریا کا مفہوم مرد کا عورت کو جاننےاور سمجھنے کا عمل لڑکپن سے ہی شروع کردینے کا تھا۔
امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں بھی عورت کے بارے میں اتنا تعصب موجود ہے کہ 240 سالہ تاریخ میں ایک بھی عورت سربراہِ مملکت نہ بن سکی۔ گوروں نے ایک مرتبہ کالے مرد کو گوری عورت پر ترجیح دی اور دوسری مرتبہ عورتوں کی تذلیل کرنے والے شخص کی حکمرانی کو گوری عورت کی حکمرانی پر ترجیح دی۔ خواتین سے تعصب کی اس سے بڑی مثال ترقی پذیر ممالک میں بھی ملنا مشکل ہے۔
ترقی یافتہ سے لیکر ترقی پزیر ممالک تک عورتوں کے ساتھ منصفانہ تو کیا مساوی سلوک تک نہیں کیا جاتا۔ مساوی یا برابری کے سلوک سے مراد ہے کہ فرض کریں ایک جیسے قدوقامت کے مرد اور عورت کو پچیس کلو وزن اٹھانے کا کہا جائے۔ چونکہ عورت فطرتاً کمزور جسم کی ہے تو یہ مساوی یا برابری کا سلوک تو ہوا لیکن انصاف نہیں۔ انصاف یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ جتنی آسانی کے ساتھ مرد پچیس کلو وزن اٹھا سکتا ہے اتنی ہی آسانی کے ساتھ عورت کتنا وزن آٹھا سکتی ہے؛ پانچ سے دس کلو یا اس سے بھی کم ؟ اور عورت کے ساتھ اتنی ہی آسانی کا معاملہ کیا جانا چاہئے۔ یہی انصاف اور حقیقی مساوات ہے۔
گزشتہ دنوں انگریزی کے خوبصورت کالم نگار اور کارڈیالوجسٹ برادرم ڈاکٹر عارف احمد نے امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم “اپنا” میں خواتین کی نمائندگی کے فقدان پر توجہ دلوائی۔ بورڈ آف ٹرسٹیز میں سے کوئی ایک بھی خاتون ڈاکٹرنہیں اور شاید تنظیم کی چالیس سالہ تاریخ میں کبھی بھی کوئی خاتون ڈاکٹر بورڈ میں شامل نہیں ہوئی۔ اسی طرح چالیس سال کے عرصےمیں صرف چار خواتین تنظیم کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ اس سلسلے میں جب “اپنا” کی چند انتہائی متحرک خواتین ڈاکٹروں سے بات ہوئی جو کہ بلاشبہ بہت سے مرد ڈاکٹروں سے زیادہ اہل اور بہترین منتظم ہیں کہ وہ کیوں تنظیمی الیکشنز میں حصہ نہیں لیتیں، تو انھوں نے انتخابات کے دوران سابقہ خواتین صدور کے حوالے سے افسوسناک داستانیں سنائیں ہیں کہ کیسے انکو ہراساں کیا گیا، کیسے اُن پر کیچڑ اُچھالی گئ اور کیسے انکی راہ میں روڑے اٹکائےگئے۔ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی آدمی امریکہ جیسے مُلک میں بھی جب ایک خاتون سے مقابلے پر آتا ہے، تو سوٹ بوٹ کی تہذیب پھاڑ کر اسکے اندر کا “اصلی مرد” باہر آجاتا ہے، جسے صرف عورت ذات کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ “مساوات” کے اصولوں پر کار فرما ہوتے ہوئے مخالف خاتون امیدوار پر بھی اتنی ہی کیچڑ اُچھالی جاتی ہو جتنی مخالف مرد امیدوار پر، لیکن بہرحال یہ ناانصافی اور قابلِ مذمت بات ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ بہترین دل اور دماغ رکھنے والے ممبران متحد ہوں اور تنظیم کے آئین میں خواتین کے لئے الگ گنجائش پیدا کی جائے۔ جب تک خواتین امیدواروں کے لئے خصوصی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی جس میں انکے وقار اور عزتِ نفس کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، ایک آدھ “مہم جو”خاتون ڈاکٹر کے علاوہ، زیادہ تر اس انتخابی عمل سے دور رہیں گی جو کہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔
گلوریا اسٹینم ٹھیک کہتی ہے ماؤں کو بیٹوں کی تربیت بیٹیوں کی طرح کرنی پڑے گی تاکہ وہ صنفِ نازک کی حساسیت اور عزتِ نفس کو محسوس کرسکیں اور اسے مجروح ہونے سے بچائیں۔
اگر پسند آئے تو آپ پورےکالم کو select اور copy کرکے اپنی timeline پر paste اور شئیر کرسکتے ہیں۔
مزید کالم اور تجزیوں کے لئے اس پیج
Tez Hay Nok e Qalam
کو like کریں، شُکریہ