مہاویر سنگھ پھوگٹ، انڈیا کی ریاست ہریانہ کا مشہور پہلوان ہے۔ قومی کھیلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے باوجود وہ بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے دیس کے لئے سونے کا تمغہ نہ جیت سکا۔ اس نے یہ تھان لیا کہ وہ اپنے بیٹے کی بہترین تربیت کرکے اسے دنیا کا عظیم پہلوان بنائے گا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا-یکے بعد دیگرے، مہاویر کے گھر چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بدقسمتی سے اُسکا بھائی ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیا اور اسکی دو بیٹیوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی مہاویر سنگھ کے کاندھوں پر آگئ؛لیکن بیٹا ہونے اور اسکے پہلوان بننے کی خواہش مہاویر کےدل میں گھُٹ کر رہ گئ۔
اب ذرا سوچیں، یہاں کوئی عام آدمی ہوتا تو اداس اور مایوس ہو جاتا، کبھی بیوی کو دوش دیتا تو کبھی قسمت کو؛ کبھی بات بے بات بچیوں کو جھڑکتا تو کبھی خود ہی چڑچڑے پن اور تناؤ کا شکار رہتا، لیکن دلیر مہاویر سنگھ نے ثابت کیا کہ وہ صرف اکھاڑے کا ہی پہلوان نہیں بلکہ تقدیر کو پچھاڑنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ مہاویر نے اپنی چھ کی چھ بیٹیوں کو پہلوانی کی تربیت دینی شروع کردی۔ یاد رہے کہ ہریانہ میں خواتین کی کشتی کا کوئی رواج نہیں تھا اس لئے مہاویر کی بیٹیوں کو ریسلر بننے کے لئےآدمیوں سے پنجہ لڑانا تھا۔ جس معاشرے میں عورت مرد سے ہاتھ تک نہ مِلا سکتی تھی، اُس میں گُتھم گُتھا ہونا ایک نئ بات تھی۔
مہاویر کا خواب حقیقت میں بدلا جب اُسکی بڑی بیٹی گیتا نے 2010 میں کامن ویلتھ گیمز میں ویمن ریسلنگ میں انڈیا کی تاریخ کا پہلا گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کردی۔ اسکی دوسری بیٹی ببیتااور بڑی بھتیجی ونیش نے انٹرنیشنل ریسلنگ جبکہ دو چھوٹی بیٹیوں اور چھوٹی بھتیجی نے نیشنل میڈلز جیتے۔
ہمارے مُعاشرے حتی کہ سوشل میڈیا پر بیٹیوں کا ذکر قابل فخر نہیں بلکہ قابلِ ترس انداز میں ہوتا ہے۔ کبھی “جنت حاصل کرنے کا ذریعہ” کی ہیڈلائن بنا کر ہر بیٹی کے باپ سے “شئیر” کرنے کی التجا کی جاتی ہے تو کبھی ایسے ریمارکس لکھے جاتے ہیں گویا بیٹی کو برداشت کرنے کا بہانہ ڈھونڈا جا رہا ہے یا بیٹیوں کے باپ ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے ہوتے ہیں کہ “کوئی نئ صبر کر” جیسے خُدانخواستہ کسی معذور کی ذمہ داری نبھا رہے ہوں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ محبت کی ضرورت تو ہر ذی روح کو ہوتی ہے لیکن بیٹی کو محبت کے ساتھ ساتھ عزت اور اہمیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اُسکی عزت نفس میں اضافہ ہو اور وہ مرد کو خود سے افضل نہ سمجھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا کام ہے جو عورت نہیں کرسکتی؟ تعلیم، عقل و دانش، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تو پہلے ہی مردوں کو پچھاڑ چُکی ہے، گیتا، ببیتا جیسی لڑکیوں نے جسمانی طاقت اور مہارت میں بھی شیر جوانوں کو دھُول چٹا دی۔ ان سب خوبیوں کے باوجود لوگ “بُڑھاپے کا سہارا” بیٹے میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ لاکھوں میں سے شائد کوئی ایک بیٹا ہو جس کے پاس بوڑھے ماں باپ رہتے ہوں اور بیٹا صاحب اور بہو صاحبہ اُنھیں عزت سے بٹھا کر دو وقت کی روٹی کھلاتے ہوں؟؟؟
جب بھی کوئی میاں بیوی بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُنھیں پتا ہونا چاہئے کہ بیٹا یا بیٹی ہونے کے برابر امکانات ہیں۔ اب اگر آدمی کو بیٹی گوارا نہیں تو وہ یا تو بچہ پیدا ہی نہ کرے یا پھر کوئی بیٹا گود لے لے، اور اگر بیٹا اور وہ بھی “اپنا خون” ہی چاہئے تو جینڈر سلیکشن (gender selection) نامی ایک میڈیکل طریقے سےبیٹا یا بیٹی جو چاہے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ سے بچے کی پیدائش کا خرچہ لگ بھگ دس لاکھ روپے ہے۔ اب یہاں آکر کئ آدمیوں کے آنسو ٹپکنے شروع ہو جائیں گے کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائیں ؟تو وہ جواب دیں کہ انکی بیوی انکے لئے بیٹا کہاں سے لائے؟ روپے کا انتظام جو کہ قابلِ عمل ہے، نہیں ہو پا رہا تو بیوی ناقابلِ عمل کیسے کرلے؟ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی تو خوش ہوتے ہیں لیکن رشتہ دار خصوصاً “لڑکی کی ساس” ہی چین نہیں لینے دیتی۔ اسی صورتِ حال سے بے اولاد لوگ بھی دوچار ہیں- وہ اپنی زندگی میں خوش وخرم ہونگے لیکن “دوسروں” کو اُنکی زیادہ “فِکر” ہوگی۔
مہاویر سنگھ ایک عام آدمی تھا لیکن اسکی سوچ کی سچائی اور عمل کی اچھائی نے اسے پورے انڈیا میں عزت دلوائی اور کل فلم “دنگل” کی ریلیز کے بعد پوری دنیا اسے عزت دے گی۔ اُس نے اپنی بیٹیوں پر مان کیا اور بیٹیوں نے اسکا مان رکھا۔ مہاویر کی طرح کوئی بھی بیٹیوں کا باپ مثال بن سکتا ہے اور یاد رہے
“مثالیں دی جاتی ہیں، بھُولی نہیں”!!!!!!!
اگر پسند آئے تو آپ پورےکالم کو select اور copy کرکے اپنی timeline پر paste اور شئیر کرسکتے ہیں۔
مزید کالم اور تجزیوں کے لئے اس پیج
Tez Hay Nok e Qalam
کو like کریں، شُکریہ