آج محترمہ بینظیر بھٹو مرحوم کی برسی ہے اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ ایک عظیم لیڈر کی یتیم بیٹی کو اپنے ہی ملک میں ایسے مار دیا گیا جیسے اسرائیل میں کسی فلسطینی کو مارا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بینظیر کے صدقے (یہاں صدقہ علامتاً نہیں حقیقتاً ہے) میں ملے ووٹوں اور رونے دھونے کی ڈرامے بازی سے بنی حکومت سوائے اسکی تصویر اپنی جھنڈے والی میزوں اور نائٹ ٹیبلوں پر رکھنے کے کچھ نہ کرسکی۔ اولاد بھی خیر سے ایسی نکلی جو سندھ کے وزیروں کے چھوٹے چھوٹے بیانات پر تو لندن سے ٹویٹس کھڑکا دیتی ہے لیکن مجال ہے پورے پانچ سال کبھی ابا جان سے امی جان کے قتل کی تفتیش پر پیش رفت کے حوالے سے سوال کیا ہو! ایف آئی اے کے سابق ڈی جی طارق کھوسہ نے کتاب The Faltering State غالباً انگریزی میں اسی لیے لکھی ہے کہ “انگریز”بچے پڑھ لیں کہ ابا جان امی جان کے قتل کی تفتیش میں سنجیدہ تو دور کی بات، کسی حد تک روڑے اٹکا رہے تھے۔
بینظیر بھٹو بطور خاتون وزیراعظم پاکستان کی شان تھی؛ بے حد ذہین اور شُستہ انگریزی میں جب بیرونِ ملک پاکستان کی نمائندگی کرتی تھی تو دنیا حیران رہ جاتی تھی، آجکل وزیراعظم کو پرچیاں پڑھتے دیکھ کر تو ہمیں شرم آجاتی ہے۔ امریکہ میں ایک پسماندہ ملک کی آکسفورڈ سے پڑھی وزیراعظم کے دورے کے دوران انھیں پتا چلتا تھا کہ تین سو سال میں اتنا ترقی یافتہ ملک بینظیر کی نظیر ،کوئی خاتون حکمران نہ بناسکا۔ پچھلے دنوں ایک ریٹائرڈ آئی جی صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ مشرف کے ساتھ برج کھیلتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب بینظیر وزیراعظم تھی تو مشرف ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن) تھا اور اس نے بینظیر بھٹو کو بریفنگ دی کہ انڈین فوج کی سپلائی لائن کاٹ کر سرینگر پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے غُصے سے کہا “انڈیا جہازوں کے ذریعے اپنی سپلائی بحال کرلے گا۔ تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو”۔مشرف اس وقت سے بینظیر بھٹو سے خار کھاتا تھا۔ ذہانت اور دلیری کا ایسا امتزاج، خواتین میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، تاہم پتا نہیں دلہا چنتے وقت محترمہ کی ذہانت اور معیار جانچنے کی خوبی کو کسی نے کیسے مفلوج کردیا تھا!
بینظیر بھٹو کا دورِ حکومت کرپشن کی “جدیدیت”اور ترقی کا مجسم “ایلان مسک”تھا۔ “پیپلز” سیاستدانوں بالخصوص مسٹر ٹین پرسینٹ نے کرپشن کی وہ وہ جدتیں متعارف کروائیں کہ کوئی محکمہ بھی بچ نہ سکا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سے جیالے مصائب اور انتقامی کاروائیوں کا شکار تھے اس لیے انھیں “اکاموڈیٹ” کرنے کے لیے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ عدلیہ کی باقاعدہ بربادی کا سہرہ بھی آپ کے سر جاتا ہے۔ پی پی پی کے بیس نامی گرامی جیالے وکیل، ہائی کورٹ میں جج بھرتی کئے گئے۔ انکے منشیوں نے وکیلوں کے فیس ناموں کی جگہ ججوں کے “رشوت ریٹس”لٹکا دئیے تھے۔ پی پی پی کے ہر تحصیل کے صدور کو کسٹم، ایکسائز اور اِنکم ٹیکس انسپکٹر کی سیٹیں دی گئیں۔ جن صدور کے بچے جوان تھے وہ خود بھرتی ہوگئے بچی کچھی سیٹیں پانچ سے سات لاکھ فی کس بیچی گئیں۔ آج اگر ان اداروں کا کوئی سپرینٹنڈنٹ یا ڈائریکٹر رشوت یا حرام خوری کرتا پکڑا جائے تو %90 چانس ہے کہ یہ بیس سال پہلے پیسے لیکر لگائی پی پی پی کی کرپشن کی پنیری کا “رینکر” پودا ہے۔ سن 1994 میں ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا ریٹ دس سے پندرہ لاکھ روپے، انٹیلی جنس بیورو کا انسپکٹر لگنے کا ریٹ پانچ لاکھ اور اے ایس آئی کا ریٹ ڈھائی لاکھ تھا۔ ان دنوں ایک بار “خریدی سیٹ” کے آئی بی آفیسر سے پوچھا کہ میاں کیا جاسوسی کرتے ہو؟ فرمایا ماڈل ٹاؤن میں بھنے چنوں کی ریڑھی لگانے کا روپ دھار کر میاں صاحبان کے گھر آنے والے سیاستدانوں کی رپورٹ پی پی سیکریٹریٹ بھیجتا ہوں۔ اس طرح آئی بی کو ناکارہ کیا گیا کہ پاک سر زمین کی انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹس پاکستانی موسم کی خبروں کی طرح ہوتی ہیں جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر؛ “پنجاب میں کہیں کہیں دہشتگردی کے امکانات ہیں، سندھ میں کہیں کہیں قتل و غارت کی تیاریاں ہو رہی ہیں”- بینظیر بھٹو کے دور میں لگی کرپشن کی انفیکشن اب پاک سر زمین کی روح تک میں اُتر گئ ہے۔
ہوسکتا ہے بینظیر بھٹو ذاتی طور پر کرپٹ نہ ہو لیکن ذمہ داری تو ملک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی ہی ہوتی ہے کہ کرپشن کو بڑھنے نہ دے۔ بینظیر کی حکومت دو دھاری تلوار کی طرح وار کر گئئ؛ عام طبقے کو بھی کرپٹ کیا اور خاص سیاسی طبقے میں زرداری اور تالپور جیسے صدیوں کے بھوکے اور “تھُڑے” لے آئی جنھوں نے سیاست کے معیار کی سطح، “وال مارٹ” سے گرا کر کریانے کی دوکان بنا دی جہاں ملک و قوم کے اثاثے اپنے چمچوں کو ”چُونگے” کے طور پر بانٹے گئے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ذوالفقار بھٹو جیسے لیڈر کی پارٹی زرداری جیسوں نے ہتھیا لی ہے۔ بحثیت لیڈر اور وزیراعظم، بینظیر بھٹو کی غلطیاں تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گی تاہم بحیثیت مسلمان، دوسرے مسلمانوں پر ان کا حق ہے کہ انکی مغفرت کی دعا کی جائے اور کرنی چاہئے! آمین
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ