اور ٹرمپ جیت گیا!!!!
ڈونلڈ ٹرمپ نے معذوروں کی نقل اُتاری، خواتین کی بےحُرمتی کی، کالوں کا تمسخر بنایا، ہسپانیوں اور میکسیکن کو “ریپسٹ” اور چور کہا اور ان کیلئے دیوار بنانے کا اعادہ کیا، مسلمانوں کو دہشتگرد اور فساد کی جڑ قرار دیا، لیکن گوروں کی تعریف کی اور انھیں سُہانے خواب دکھائے، جس کے باعث گوروں نے اُسے صدر چُن لیا۔
اس صورتحال میں دیکھا جائے تو گورے، انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ ہیں۔
چلیں اب ایک منٹ کے لئے فرض کرتے ہیں کہ
یہی ٹرمپ معذروں کی نقل اُتارتا ہے، خواتین کی بےحُرمتی کرتا ہی ، کالوں کا تمسخر بناتا ہے، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ریپسٹ اور چور کہتا ہے اور ان کیلئے دیوار بنانے کا اعادہ کرتا ہے، لیکن اس بار وہ مسلمانوں اور گوروں، دونوں کی تعریف کرتا ہے اور انھیں سُہانے خواب دکھاتا ہے، تو کیا مسلمان اُسے صدر چُنیں گے؟؟؟؟ جی یقیناً چُنیں گے۔
تو کیا اب مسلمان بھی گوروں کی طرح انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ کہلائیں گے؟؟؟
ظاہری سی بات ہے کہ اس کا جواب ہے “نہیں”!!!یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جو کہ دُنیاکے ہر مُلک اور خطے میں لڑی جاتی ہے۔ گوروں نے اپنا مفاد دیکھا اور “رنگ داروں” نے اپنا۔
یاد رہے کہ راقم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہیلری کلنٹن کی حمایت میں آگے آگے تھا اور وجہ وہی ہے جو اوپر بتائی گئ ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں مُنہ نہیں لگایا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ٹرمپ بیوقوف اور مشتعل مزاج انسان ہے لیکن اس نے بڑی چالاکی سے %0.9 مسلمانوں، %13 کالوں اور %16 ہسپانیوں کو امریکہ کی ترقی اور برائے نام عظمت کی زوال پزیری کاشباعث قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ %58 گوروں نے اسے ووٹ تو دئے ہی مگر%30 ایشین اور %30 ہسپانوی ووٹ بھی لے اُڑا(اصل “پٹواری” تو ہسپانوی ہوئے، اتنی بے عزتی کے بعد بھی تیس فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ)۔ یاد رہے کہ ہندوستانی بھی ٹرمپ کے حق میں تھے۔
ہم امریکہ میں تارکینِ وطن ہیں اور رہیں گے جب تک ہم اپنے بچوں کی گوروں سے شادیاں کرکے ایک نئ کارٹون نما نسل پیدا نہ کرلیں اور یہ کارٹون نما نسل بھی کوئی ایک دو نسلوں کے بعد اصلی امریکی” کہلائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں کئ “اصلی” “شاہ” بنتے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے بنتے ہیں اسلئے ہم انکے “اصلی” ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کارٹون نما نسل کیسی ہوتی ہے، اسکا نمونہ ٹی وی پر “انکل الطاف” یا “چاچا عمران” کہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
تارکینِ وطن کو زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ تارکینِ وطن کا بھٹو زندہ رہتا ہے نہ ہی لوہار ہمیشہ کیلئےگلے کا ہار بن سکتا ہے۔ تارکینِ وطن نہ تو ٹرمپ کے گھر کے سامنے دھرنا دی سکتے ہیں اور نہ ہی انکا لیڈر ایسا مجمع اکھٹا کرکے “بچہ پیدا کرنے کے طریقے” بیان کرسکتا ہےجس میں خود بچے بھی سُن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرنا پڑتا ہےتاہم آزادی اظہار کے طور پر اپنی آواز مُناسب طریقے سے بُلند کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے اس الیکشن جس اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، انکی اثر اندازی اور انکے علاقوں میں ہیلری کے ووٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم دس سیٹوں پر پاکستانی ایوانِ زیریں (House of Representative) کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ آنے والی ری پبلیکن حکومت کی جیت کا کھُلے دل سے خیر مقدم کرکے اس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے جائیں اور بہتر تعلقات کیلئے بہترین پلیٹ فارم استعمال کئے جائیں کیسا کہ PAKPAC “پاک پیک” Pakistani-American Political Action Committee امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی بہترین نمائندہ تنظیم ہے۔ (مزید معلومات کے لئے
wwwpakpacusadotorg کو وزٹ کریں)۔
زندہ قومیں زندہ فیصلوں سے زندہ رہتی ہیں۔ بیدار مغزی ، سمجھداری اور مُلک و قوم کی بہتری جذباتی وابستگیوں سے بڑھ کر ہے۔
خدا ہمیں مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین
آخر میں کچھ دلچسپ صورتحال کا ذکر ہو جائے۔ امریکہ میں ARY کےچیف اور میرے عزیز دوست آصف جمال نے اوہائیو کی صورتحال پر لائیو تجزیہ کا “حُکم” دیا اور میں آپریشن تھیٹر سے بھاگم بھاگ پولنگ اسٹیشن پہنچا۔ اس وقت ہیلری اوہائیو سے جیت رہی تھی تو میں نے ARY پر ہیلری کی اوہائیو بلکہ پورے امریکہ میں جیت کے عمرانی دعوے کئے(“حسن””حسینی” دعوے اس لئے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں باوضو نہیں تھا) تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ افسوس کے ساتھ مختلف نتائج کے ساتھ ہیلری
کی ہار کا تجزیہ دینا پڑا۔
اگر کالم پسند آئے تو شئیر کیجئے!
مزید کالم اور تجزیوں کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں، شُکریہ