تل ابیب سے یروشلم تک

ٹرمپ نے ایک اور ٹرمپ کارڈ کھیل دیا، یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں کی تو دُکھ اور درد سے فلک شگاف چیخیں گونج رہی ہیں لیکن سعودی عرب نے برائے نام احتجاج کیا۔ سعودی عرب سے زیادہ موثر احتجاج تو فرانس، جرمنی اور انگلینڈ نے کیا ہے اور بادشاہ سلامت ٹرمپ کو عقل کے ناخن لینے کی نصیحت کی ہے۔ سعودی شہزادےمحمد بن سلمان کی ٹرمپ کے یہودی داماد سے دوستی اور “زبردستی” ولی عہد بلکہ صحیح معنوں میں عملی طور پر سعودی عرب کا بادشاہ بنانے کی قیمت کی پہلی قسط وصول کرلی گئ۔ اسی سلسلے میں سعودی شہزادوں کی گرفتاری اور ان سے زبردستی واپس لئ گئ دولت کی تائید میں ٹرمپ کی حمایت کی ٹویٹ آئی تھی جس نے شہزادےمحمد بن سلمان کے خلاف بغاوت کے خدشے کو دور کردیا۔ “رائیٹرز” میں سمیعہ نخول کے لکھے گئے ایک کالم کے مطابق جیرڈ کشنر، محمد بن سلمان اور فلسطین کے صدر محمود عباس کے درمیان چند ماہ پہلے سعودی عرب میں ایک خفیہ ملاقات میں شہزادہ سلمان نے محمود عباس پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی دارلحکومت کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے پر زیادہ احتجاج نہ کرے اور اسکے بدلے میں 2018 کے اوائل میں فلسطین اور اسرائیل میں امن کے عمل کو کسی منتقی نتیجے تک پہنچا دیا جائے گا۔بروکنگ انسٹی ٹیوشن آف واشنگٹن کے شدی حامد کا کہنا ہے کہ گلف اسرائیل الائنس کی خواہش اور ایران سے مقابلہ میں محض امریکہ کی مدد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کی جانب سے کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مبنی فلسطین کی آزادی کی تجویز فلسطینیوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوگی۔

یہودیوں کی تاریخ گزشتہ ساڑھے تین ہزار سالوں سے نشانِ عبرت ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کے تقریباً ہر حصے میں یہودیوں کا سورج طلوع ہوا اور بلندی پر پہنچتے ہی انھوں نے اپنی اصل چہرہ دکھایا اور پھر بربادی کا شکار ہوگئے۔ بابلیوں کے ہاتھوں در بدر ہونے سے لیکر، روم اور یونان کی ذلالت تک، مشرقی یورپ کی دربدری سے لیکر ہٹلر کے ہاتھوں سنگدلانہ تباہی تک؛ جب بھی یہ قوم کُٹ مر کر دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، آنسو پونچھ کر سب سے پہلے ہمدردی کرنے والوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتی ہے۔ ہٹلر کے ہاتھوں قتل عام سے بچ کر یہودی جرمنی اور مشرقی یورپ سے فرار ہوکر روس، امریکہ اور فلسطین میں پہنچ گئے۔ ہٹلر کے ظلم کے باعث دنیا نے یہودیوں کے لیے ہمدردی دکھائی اور فلسطین میں آباد کیا تو روتے روتے، ٹسوے بہاتے، خیمے کا اونٹ بن کر مالک کو ہی باہر نکال دیا۔ ڈھٹائی یہ ہے کہ ہٹلر کے ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کے محض تین سال بعد، فلسطینیوں کا حق مارتے ہوئے 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا اور 1967 کی جنگ میں مزید علاقے ہتھیا لئے گئے۔ پوری دنیا سے یہودی اسرائیل منتقل ہوئے اور آج اسرائیل کی اسی لاکھ آبادی میں سے ساٹھ لاکھ یہودی ہیں۔ پوری دنیا کے مجموعی طور پر محض ڈیڑھ کروڑ یہودی پوری دنیا پر قبضے کے خواہاں ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔ آئن اسٹائن سے لیکر سگمنڈ فرائیڈ اور بل گیٹس سے لیکر مارک ذکربرگ تک جیسے یہودی پوری دنیا پر اپنا اثر رکھتے ہیں۔ نیویارک میں یہودیوں کے مرکزی (بلکہ مذہبی) اسپتال میں چار سال کام کرتے ہوئے ایک بات میں نے نوٹ کی کہ جو مسلمانوں کے لیے ایک “مٹھی کی مانند یکجا” ہونے کا حکم ہے، اس پر یہودی سختی سے کاربند ہیں۔ جب قوم پرستی کی بات آئے، تو وہ انصاف، قانون اور سچ کی بھی دھجیاں اُڑا دیتے ہیں۔

یہودی گزشتہ ستر سالوں سے اپنے اوپر ہٹلر کے اتیا چار کو بار بار دہرا کر، پوری دنیا کا جذباتی استحصال کرتے آرہے ہیں؛ تاہم سائنس کی ترقی بہت سے ایسے استحصالی رویوں کی شناخت بھی کررہی ہے۔ اسی لیے امریکہ کی پشت پناہی اور اسرائیل کی بدمعاشی کے سامنے فرانس بھی سینہ تان کر کھڑا ہوگیا ہے اور جرمنی بھی؛ یورپی یونین کی نمائندہ فریڈریکا مگیرنی نے بھی اسرائیل کے وزیراعظم کو صاف جواب دے دیا ہے کہ یروشلم اسرائیل کا دارلحکومت نہیں بن سکتا۔ نیتن یاہو جتنا بے عزت ہوکر گھر آیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ بنی اسرائیل، خدا کے چُنے ہوئے بندے، آج تک اس “چناؤ” کے زعم سے باہر نہیں آسکے۔ وہ پوری دنیا میں اپنی چال چل رہے ہیں۔ امریکہ سے لیکر روس اور اب چین سے لیکر سعودی عرب انکی مٹھی میں ہے؛ لیکن “ایک چال الّلہ چل رہا ہے اور الّلہ کی چال سب سے بڑھ کر ہے”۔ ان کی رسی دراز ہو رہی ہے، انکا فلسطینیوں پر بلاواسطہ اور دیگر مسلمانوں پر بالواسطہ ظلم ان کا برتن بھر دے گا۔ یہ اوپر جائیں گے، ایسا لگے گا کہ یہ دنیا کے تاجدارحکمران بننے والے ہیں اور پھر ہمیشہ کی طرح رسی کھینچ لی جائے گی اور یہ پھر اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ مسلمان تو ایک دوسرے کی دُشمنی میں یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں بلکہ صرف بدعائیں کرسکتے ہیں لیکن انکی عبرت انگیز تباہی کا فیصلہ انکی تقدیر کرے گی اور تقدیر لکھنے والا کرے گا۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *