مشعال خان کو سازش کے ذریعے بے دردی سے مار دیا گیا۔ اس کی لاچار اور بوڑھی ماں کہتی ہے، ” میں نے بیٹے کی میت کے ہاتھ چُومے تو انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں”، قہر خُدا کا!!! تفتیش اور میڈیا کا رُخ اب یونیورسٹی انتظامیہ اور قاتلانہ سازش کی جانب ہوگیا ہے لیکن اہم نُقطہ وہیں کا وہیں ہے کہ توہینِ رسالت کے الزام میں اس کو ایک بپھرے ہجوم نے ہلاک کیا ہے۔ گویا کہ چند سازشیوں کو نکال کر لگ بھگ اٹھانوے فیصد نے “نیک نیتی” سے اُسکی جان لی ہے جو کہ بقیہ دو فیصد سازشیوں سے زیادہ بھیانک عمل ہے۔ کچھ اسے قادیانی اور کچھ ملحد قرار دے رہے تھے۔ ہم میں سے ہر مُسلمان عاشقِ رسول ہے اور جو عاشق نہیں وہ مُسلمان نہیں۔ ایک عام آدمی اپنے دوست کی توہین برداشت نہیں کرسکتا تو جن سے عشق ہو اُن کی کیسے کرےگا۔ لیکن اگر ہر الزام لگانے والا خود ہی تفتیشی، خود ہی جج اور خود ہی جلاد بن جائے گا تو انصاف کیسے ہوگا؟ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر توہینِ رسالت کے حقیقی کیسیز دہشت گردی کی عدالتوں میں سُنے جائیں اور تین مہینے کے اندر قرار واقعی سزا سُنائی جائے تو لوگ اپنے ہاتھوں میں قانون نہیں لیں گے لیکن اسکے ساتھ ساتھ جو جھوٹا الزام لگائے اس کی سزا موت ہو کیونکہ یہ نا صرف توہین سے بڑھ کر توہین ہے بلکہ دہشت گردی کی کوشش ہے۔ مشعال خان کیس میں قاتلانہ سازش کے جُرم میں یونیورسٹی انتظامیہ کے ملوث افراد اور وجاہت، فہیم عالم اور بلال کو سرِ عام پھانسی دی جائے اور اسکے ساتھ ساتھ جو طالب علم مشعل کو مار رہے تھے انھیں کم ازکم عمر قید ہو اور وہ بھی قیدِ تنہائی۔ نہ جنازے نکلیں گے اور نہ ہی کئ لوگوں کی کمائی کا ذریعہ بنیں گے۔
پچھلے ہفتے زاویہ اسکول کی ضرورت پر کالم لکھا گیا اور بدقسمتی سے اسی دن مشعال خان کا بیہیمانہ قتل ہوا جو زاویہ اسکول کی ضرورت پر مہر ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ “جہالت” یونیورسٹیوں تک پھیل گئ ہے۔ مذہبی تعلیم جدید تعلیم کے بغیر اور جدید تعلیم مذہبی رواداری کے بغیر خطرناک ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ ترقی کے لئے مذہبی اور جدید تعلیم کو ساتھ ساتھ چلنا ہوگا۔
“حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ایک فقیہ (یعنی عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔” (جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ)۔ یاد رہے عالم سے مُراد “ایم ایس سی”، “پی ایچ ڈی” یا “ایف آر سی ایس”نہیں بلکہ دین اور دنیا دونوں کی تعلیم رکھنے والا ہے۔
زاویہ اسکول کے نظریے پر ہزاروں لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ تعلیمی خدمات پیش کرنے کا بھی اعادہ کیا۔ تاہم ایک قلیل تعداد نے انتہائی غلیظ زبان کا استعمال بھی کیا اور اُن کو بلاک اسلئے نہیں کیا گیا تاکہ ایک عام آدمی کو پتا چلے کہ ہمارے دین کو خطرہ یہود و نصاریٰ سے زیادہ نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے جاہل مسلمانوں سے ہے۔ مجھے یہودی، کافر، امریکی ایجنٹ اور سب سے زیادہ ایرانی ایجنٹ یا شیعہ کہا گیا جو کہ میرے لئے باعثِ فخر ہے کہ سُنّی ہونے کے باوجود میرا قلم شیعہ سُنی فرقہ واریت سے پاک ہے۔
بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کہ تفرقہ بازی کو ختم کرنے کے لئے تمام اسلامی فرقے کئ کئ دن کی متحدہ کانفرنسیں کرتے ہیں اور حل ندارد۔ اسکی وجہ دلوں میں بُغض ہے۔ جب کانفرنس سے واپسی پر معنی خیز ہنسی کے ساتھ ہر فرقہ “صرف” اپنے آپ کو ہی جنت کا واحد حقدار سمجھے گا تو یہ منافقت معاشرے کی گہرائی تک جاکر ایک عام آدمی کی نیت میں سرایت کرجاتی ہے اور وہ بلاوجہ دوسرےفرقے کا دُشمن بن جاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ ایک شیعہ بیروزگاری سے پریشان اپنے بچوں کے لئے رزق کمانے نکلے اور جوان بچیوں کا باپ کوئی سُنی انکی شادی کی فکر کرنے کی بجائے شیعہ کی جان لے کر پھانسی چڑھ جائے یا شیعہ کسی سُنی کو مار کر سزائے موت پائے تو ان دونوں کی جنت کا تو پتا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ دونوں کے بچوں کی زندگی ضرور جہنم بن جائے گی۔ اسی طرح بہت سوں کو پاکستان میں کسی قادیانی اور ملحد کا وجود گوارا نہیں لیکن انڈیا میں مسلمانوں کے حقوق کے داعی ہیں۔
مشہور مُصنف، “جو نووارو”، اپنی کتاب ” ہر جسم کیا کہہ رہا ہے” (what every body is saying) میں لکھتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ اسی فیصد سے زیادہ تال میل اور “بات چیت” بدن بولی (body language) کے ذریعے کرتے ہیں۔ اور “بدن بولی” جھوٹ نہیں بولتی۔ تو جب ہم ظاہری ڈرامے کرنے کی بجائے، دوسرے فرقوں یا مذاہب کو دل سے تسلیم کریں گے، بطور انسان انھیں اپنے برابر سمجھیں گے، ان سے میل جول رکھیں گے تو ہماری بدن بولی سے دوسرے فرقے اور مذاہب والوں کو مثبت پیغام ملے گا جو آہستہ آہستہ برداشت ، رواداری اور عزت کی منزلوں کو چھُو لے گا۔ پھر نہ تو بےاختیار کسی کو گستاخ یا مُلحد قرار دے سکیں گے اور نہ ہی کسی کو صفائی کا موقع دئے بغیر سزا۔ یہ اسلام کی جیت ہوگی انسانیت کی جیت ہوگی اور جہالت کی ہار۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ