حسد سے نا قابلیت تک

حسد اور رشک میں فرق شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو نہ پتا ہو لیکن حسد، نفرت کے بعد دُنیا کا شدید ترین جذبہ ہے۔انسانی تاریخ کے پہلے قتل سے لیکر آج تک یہ موضوع زیرِ بحث ہے اور تشنہ ہے کیونکہ حاسد سے حاسد انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے کو اسکے حسد کا پتا نہ چلے، چہ جائیگہ پوری دنیا کو پتا ہو۔

کتابوں اور کہاوتوں کے برعکس عملی طور پر رشک اور حسد اکھٹے پائے جاتے ہیں اور علم اور سوچ کے فرق کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ شاید آپکو یہ بات عجیب سی لگے لیکن کبھی کبھی حسد کسی انسان کو نیند سے جگانے کے کام آجاتا ہے۔کسی اپنے جیسے نکھٹو کے کامیاب ہو جانے کے حسد سے ایک بار اپنی بے حسی کے جمود سے ضرور نکلتا ہے چاہے حسد کی آگ کے ذریعے ہی یہ برف پگھلے۔ اسی طرح کسی کے وقتی حسد کی وجہ سے کی گئ محنت کبھی کبھار انسان کو بُلندی پر لے جاتی ہے جہاں جاکر وہ اپنے وقتی حسد سےاسی طرح شرمندہ ہوتا ہے جیسے انسان ماضی میں کئے گئے اپنے دیگر گُناہوں پر اور پھر وہ نہ صرف حسد ترک کر دیتا ہے بلکہ اُن کی مدد بھی کرتا ہے جن سے حسد کیا ہو۔

حسد اور رشک دُنیا میں ہر شہر،ہر جگہ اور ہر مُقام پر ہوتے ہیں لیکن مملکتِ خداداد میں ہر بات کی طرح یہ بھی انوکھے ہی انداز میں ہوتے ہیں۔ کسی سفید پوش محلے میں اگر کوئی آدمی امیر ہوجائے تو محلے کے بہت سے لوگ مالی مُشکلات میں جب بھی مُبتلا ہونگے، اسی امیر آدمی سے قرضہ بھی لیں گے لیکن حسد بھی کریں گے۔ اگر سوچیں کہ انکے حسد کے مُطابق اگر امیر آدمی سے یہ سب چھِن گیا تو مُشکل وقت میں انکی مدد کون کریگا؟۔ اسی طرح اگر غریب خاندان میں سے کوئی بچہ محنت کرکے اعلیٰ آفسر بن جائے تو لائسنس سے لے کر بجلی کے بل تک کے لئے اسکے سر پر موجود ہونگے اور اسکے ساتھ ساتھ حسد بھی جاری و ساری رہے گا۔

پڑھے لکھوں کا حسد بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آگر کوئی دوست شاعر بن جائے اور اسکے کلام کی دھوم مچے تو جوش میں آکر خود بھی کوئی قطعہ لکھ ماریں گے اور سوشل میڈیا پر “جوابی لائکس یا کمنٹس” کے منتظر ہونگے اور اگر معیار کی کمی کے باعث پذیرائی نہ ہو تو ناراض ہوکر اچھے شاعر دوست کو بھی unfollow (کم از کم) کر دیتے ہیں۔ زندگی میں کچھ بننے کے لئے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ ہم لوگ دوسروں کو سیاسی, سماجی، علمی یا فلاحی سرگرمیوں سے مقبول ہوتا تو دیکھتے ہیں لیکن اس کے پیچھے مستقل مزاجی سے برسابرس کی گئ تگ و دو نہیں دیکھتے اور جب کبھی اس رستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو چند دنوں میں ہی (ایک دو کو تو ایک دن میں ہی) نانی یاد آجاتی ہے۔ ظاہر ہے پھر محنت اور تگ و دو ختم ہاں لیکن کیا شروع؟؟؟ جی درست فرمایا! حسد شروع۔

حسد کے بارے میں مذہبی احکامات کی لوگ اتنی ہی پرواہ کرتے ہیں جتنی کرپشن نہ کرنے کے متعلق احکامات کی، تاہم سائنسی اور ڈاکٹری نقطہ نظر سے بھی حسد زہرِ قاتل ہے۔ جس طرح ہم اپنے جسم کو خاص ورزشوں سے “ڈولوں”یا “سکس پیکس” کے لئے ٹرینڈ کرتے ہیں اسی طرح دماغ کے سوچنے سمجھنے، ترقی اور کامیابی کا باعث بننے والے حصے انتہائی نازک اور قیمتی ہوتے ہیں اور انکی بھی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کے حسد سے ہٹ کر اگر ہم مسلسل ان حصوں پر حسد اور منفی سوچ کا بوجھ ڈالتے رہیں تو جب بھی زندگی آپ کو ترقی کا موقع دے گی تو یہ حصے لاچار ہو چکے ہونگے۔۔

بددعائیں کام کرتیں تو زرداری نہیں تو کم ازکم جارج بش کو ہی فالج ہو جاتا۔ حسد کام کرتا تو عمران خان پاپڑ بیچتا۔ دوسروں کے حسد کے اوپر اپنا قیمتی ذہن ضائع مت کریں۔ آپ کو وہ ملے گا جس کے لئے آپ کا ذہن تیاری کرے گا۔ “لوئی پاسچر” کہتا ہے

“Chance favors the prepared mind”

یعنی جو دماغ بھی تیاری کرے گا، مثبت سوچے گا، حسد سے اجتناب کریگا، مقدر کی لاٹری سے مواقع بھی اُسی کی جھولی میں گریں گے، اور بہترین طریقے سے تیار دماغ ان موقعوں کو چیتے کی طرح دبوچ لے گا۔

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔
Tez Hay Nok e Qalam
کو like کریں تاکہ مزید کالم پڑھ سکیں، شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *