پاکستان میں برسات کے موسم میں اتنے کیڑے مکوڑے نہیں نکلتے جتنے دسمبر میں شاعر “نکل” آتے ہیں۔ ہر کوئی اُداس، ہر کوئی غمگین۔ کوئی چار یاروں میں بیٹھ کر “آس بے وفا” کا ذکر چھیڑ رہا ہے اور کوئی “رام” کی طرح زور زور سے چلا رہا ہے “لِیلا جیسا کوئی نہیں”۔ بظاہر یہ بیماری اندر ہی اندر پھلتی پھیلتی رہی ہے لیکن اب سوشل میڈیا کی مہربانی سے “اِٹ پَٹّو” بلکہ یوں کہیں کہ فیس بُک کی ٹائم لائن پَٹّو تو دسمبری شاعر(دس نمبری پڑھنے سے گُریز کیا جائے) نکل آتا ہے اور نکلتے ساتھ ہی”نوٹنکی” شروع۔ ان سب کا حال دیکھ کر ہم جیسے بندے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اس غمگین کیفیت سے کبھی ہم کیوں دو چار نہیں ہوئے۔ درد بھری دسمبری شاعری کے لئے بچھڑنا ضروری ہے اور بچھڑنے کے لئے ملنا ضروری ہے۔ “خدا کی مہربانی” سے کبھی “پہلے اسٹیپ” یعنی ملنے میں ہی کامیابی نہیں ہوئی تو کیسا وچھوڑے کا غم اور کاہے کی شاعری؟
“خُدا کی مہربانی” کے ذکر سے ایک دوست یاد آگیا جس کا نام مُراد تھا۔ مُراد راہ چلتی حسیناؤں کو رجھانے میں اتنا ہی ماہر تھا جتنا شوکت عزیز کونڈولیزا کو پھانسنے میں اور نواز شریف کرسٹینالیمب کو “آئی فونی دوست” بنانے میں۔ مُراد جب بھی کسی خاتون سے”عزت”کروا کر آتا تو انتہائی کانفیڈنس سے ارشاد فرماتا کہ “خدا کی مہربانی” ہے کہ اُسنے “بڑے” گُناہ سے بچالیا-بار بار کی ناکامی اور نامُرادی کی وجہ سے اُسکا نام “مُراد نامُراد” پڑگیا تھا۔
ایک دن میں نے “مُراد نامُراد” سے پوچھا، “یار! اب تو یہ دودھ دہی بیچنے والے پہلوانوں سے لیکر پھیری والے بھی “دسمبری شاعر” بن گئے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان کی بھی مُحبتانہ “خوش قسمتی” ہماری سوکھی قسمت سے بہتر نکلی۔ ہم تو پھر ہر ایک سے گئے گُزرے ہیں۔ یہ بات سُن کر”مُراد نامُراد” بے ڈھنگی سے انداز میں ہنس کر بولا، “یار تو بھی ہر کسی سے خوامخواہ امپریس ہو جاتا ہے، اِن سب ڈرامے بازوں میں سے کوئی پانچ سات فیصد ہی کامیاب عاشق ہیں جنھوں نے دسمبر کی کڑکتی سردی میں محبوب کے ساتھ گُلچھڑے اُڑائے ہیں، فلمی انداز میں ہیرو صاحب نے ہیروئن کو گرم شال سے ڈھانپا ہے یا ایک ہی گرم چائے کی پیالی کو “سُڑکے”لگا لگا کر دونوں نے شئیر کیا ہے، عہد و پیماں کئے ہیں اور پھر واقعتاً بچھڑے ہیں، تو اُنکی دسمبری شاعری تو بنتی ہے”۔ میں نے ہونکوں کی طرح مُنہ کھول کر پوچھا، “اور باقی یہ نوے فیصد سے بھی زائد، انکی کس چکر میں اُداسیاں اور شاعریاں ٹپک رہی ہوتی ہیں؟”
“مُراد نامُراد”نےمیری طرف ترس کھائی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا،” او کملے، یاد صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس راستے پر ہم ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے تھے۔ دسمبری عاشقوں اور شاعروں کے لئے تو یہ بھی یادِ عشق ہے کہ وہ تانگے پر جاتی تھی اور میں سائیکل پر سردی میں کانپتا، اسکے پیچھے خوار ہوتا تھا، وسط دسمبر میں انھی دنوں اُس نے مجھے بار بار تاڑتا دیکھ کر غُصے سے مُٹھی کھول کر پانچوں اُنگلیاں پھیلا کر دِکھائیں تھیں، اور میں سمجھا پانچ بجے ملنے کا ٹائم دے رہی ہے۔ اور تو زیادہ ٹینشن نہ لے۔ کبھی توجہ سے سُن؛ جن کو محبت ملی نہیں اُنکی تو محبوب کی یاد میں صرف شاعرانہ آہیں نکلتی ہیں لیکن جنھیں محبت مل گئ اُن کی شاعری سسکیوں اور چیخوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ “اصلی” اور “فور سیزن”المیہ شاعر ہوتے ہیں بس دسمبر میں شاعرانہ چیخیں اس لئے زیادہ گُونجدار ہوتی ہیں کیونکہ اکثر اسی مہینے کے “رومانس” نے ہی انھیں اس انجام تک پہنچایا ہے۔
علم و عقل کے خزانے لُٹا کر، “مُرادنا مُراد” بولا، “اچھا چل تو اُداس باتیں چھوڑ، یہ چند حسینائیں آرہی ہیں، انھیں ذرا چیک کر”۔ اور” نان اسٹاپ” پانچ منٹ کے “چیک” کرنےکے بعد ہی دو خواتین نے ہاتھوں کی پانچوں اُنگلیاں ہماری طرف کھول کر ہم دونوں کو ہمیشہ کی طرح “پانچ بجے کا ٹائم دے دیا”
سب احباب کو نیا سال مُبارک ہو!!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ