“ٹالرنس” (Tolerance) کے لفظی معنی “برداشت” یا “رواداری” کے ہیں۔ میڈیکل سائنس میں “ٹالرنس” کا مطلب ہے جسم کا کسی دوا یا محلول کا عادی ہو جانا ہے، مثلاً درد کی دو گولیاں کھانے سے جو آرام پہلے دن ملا تھا، چھ مہینے تک کھاتے رہنے کے بعد اُسکا آدھا آرام ملے اور اگر درد کی گولیاں دو سے چار کر دیں تو وہی آرام ملے جو چھ ماہ پہلے محض دو گولیوں سے ملا تھا۔ مشہورِ زمانہ اصلاحی پروگرام “ستیہ میو جیتے” میں شاعر جاوید اختر “ٹالرنس” کی خوبصورتی سے مثال دیتے ہوئے عامر خان کو بتاتے ہیں کہ “اگر کوئی آج شراب کا ایک جام پئے تو ہو سکتا ہے کہ ایک سال بعد شراب کے گیارہ جام پی کر اُسے وہی سرور ملے جو آج ایک پی کر ملتا ہے۔ جبکہ اگر کوئی آج دودھ کا ایک گلاس پئے تو ایک سال کے بعد بھی وہ ایک ہی گلاس پئے گا، گیارہ نہیں”۔ گویا شراب کی “ٹالرنس” پیدا ہوگئ لیکن دودھ کی نہیں۔ اگر کسی بھی چیز کی “ٹالرنس” کو وقت پر پہچانا اور اُسکا تدارک نہ کیا جاسکے تو وہ بڑھتی بڑھتی انتہائی نُقصان دہ حتی کہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔
آج کے دور میں پوری دُنیا بالخصوص امریکہ میں درد کا علاج کرنے والی نشہ آور ادویات کی “ٹالرنس” اور پھر بےجا استعمال (abuse) بہت بڑا قومی مسئلہ ہے، یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اسکے کنٹرول کے لئے قرارداد پیش کی گئ ہے جس کی تائید حکومتی اور اپوزیشن، دونوں بینچوں سے ہوئی ہے۔ بہت سے درد کے معالج جب دیکھتے ہیں کہ درد کے علاج میں نشہ آور ادویات کی “ٹالرنس” پیدا ہو رہی ہے تو وہ بجائے زیادہ کرنے کے، نشہ آور ادویات کی مقدار کو کم بلکہ کچھ عرصہ کے لئے ختم کر دیتے ہیں جس سے جسم کا “ٹالرنس” کا نظام ٹھیک ہوکر جسم پہلے کی طرح “کنوارہ”ہو جاتا ہے جو تھوڑی سی دوائی سے بھی آرام پالے۔
درد کا معالج ہونے کی حیثیت سے میں اس عمل کو سالوں سے روزانہ دیکھ رہا ہوں اور مُجھے یہ عمل ذاتی طور پر روزہ سے ہم آہنگ لگتا ہے۔روزہ، گیارہ مہینے پیدا ہونے والی غذائی، نفسانی، شہوانی، نفسیاتی، روحانی اور جسمانی “ٹالرنس” کو دوبارہ “ری سیٹ” کرنے کا انتہائی موثر اور دیرپا طریقہ ہے۔ روزے کے جو مذہبی احکامات ہیں وہ ہم سب بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں اسلئے اُنکو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ روزہ مذہب کی نہیں ہماری ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ کئ غیر مُسلم بھی رمضان میں روزے رکھتے ہیں تاکہ اُن کی ذات پر اچھے اثرات پڑیں۔
اگر غذائی پہلو کو لے لیں تو پورے گیارہ مہینے چٹ پٹے اور مزیدار کھانے ہر وقت اور ہر جگہ کسی مقدار کی پروا کیے بغیر چل رہے ہوتے ہیں۔ گو کہ “دانشورانِ وطن” روزے سے پہلے سحری اور پھر افطاری کی کھابہ گیری پر نوحہ کناں رہتے ہیں لیکن بحرحال دیگر گیارہ مہینوں کی نسبت یہ روٹین صحت کے لئے نسبتاً بہتر ہے۔ پندرہ گھنٹے کی بھوک پیاس ہر وقت کھانے پینے کی “ٹالرنس” کو شکست دیتی ہے اور انسان کو بھوک و پیاس کی اذیت کے ساتھ ساتھ غریبوں کی روز کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح دولت کی “ٹالرنس” کو عموماً حرص اور لالچ گردانا جاتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں زکوۃ کی ادائیگی اس “ٹالرنس” کا علاج ہے۔
یہی حال نفسانی، شہوانی اور روحانی “ٹالرنس” کا ہے۔ کیسا محسوس ہورہا ہے آپ سب کو کہ پچھلے چند دنوں سے “وٹس ایپ” پر کوئی برہنہ تصویر، کوئی فحش لطیفہ کوئی جھوٹا اسکینڈل گردش نہیں کررہا ہے؟ “اعلیٰ دماغ” کے فلاسفر اور “قلمی سائنسدان” اب کہیں گے کہ جی یہ تو بس ایک مہینے تک کے لئے ہے اور اسکے بعد ہم سب پھر ویسے کے ویسے! تو جواب ہے کہ یہی “ٹالرنس” کا توڑ ہے!!! وقفہ!!! طے شُدہ وقفہ!!! بار بار آنے والا وقفہ!!!
اپنے ہمسائے مُلک میں ہی دیکھ لیں کہ “ٹالرنس” کیسے بڑھی؛ بیس سال پہلے جس مُلک میں “چولی کے پیچھے کیا ہے” گانے کے محض الفاظ پر کہرام مچ گیا، آج اُنکی فلموں میں اخلاق باختہ عورتیں(پورن اسٹارز) چولی کو اُتار کر پھینک دیتی ہیں اور کوئی چوں تک نہیں کرتا ہے۔ اس “ٹالرنس” کے نتیجے میں انڈیا کے دارلحکومت دہلی کو “ریپ کیپیٹل آف دی ورلڈ” کا ٹائٹل دیا گیاہے۔ وہی دہلی جو کسی زمانے میں جائے امان تھا محض فحاشی کی “ٹالرنس” سےاب عزت کے لُٹیروں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
ہم پاکستانی بھی کوئی کم درندے یا کم گناہگار نہیں ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ “شوال” کے مہینے میں پیدا ہونے والا ہمارے اندر کا درندہ “شعبان” کے مہینے تک گیارہ ماہ کا ہو کر ابھی غرّانا اور شکار پر جھپٹنا سیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہمیں رمضان کا رحمتوں بھرا مہینہ عطا ہوتا ہےاور ہم میں سے زیادہ تر کا وہ گیارہ ماہ کا کم سن درندہ مر جاتا ہے یا کومے میں چلا جاتا ہے۔ مرا ہوا درندہ پھر اگلے “شوال” میں دوبارہ جنم لیتا ہے یا کومے والا درندہ گیارہ ماہ میں کچھ “صحت یاب” ہوتا ہے تو ہمارا محافظ رمضان المبارک پھر آ دھمکتا ہے۔ جب تک اس مُبارک اور محافظ مہینے کا استقبال ہوتا رہے گا، ہمارے نفس کی تقطیر ہوتی رہے گی، ہماری “ٹالرنس” کا علاج ہوتا رہے گا۔ اگر ہم نے (خدانخواستہ) اس مہینے کی قدر کھو دی، تو ہمارے نفس کا گیارہ ماہ کا درندہ کسی “رکاوٹ” کے بغیر جوان اور خونخوار ہوجائے گا۔ قوم بالخصوص جوانوں میں ہر وقت نقص نکالنے والوں کو تب پتا چلے گا کہ بگڑی قوم کیا ہوتی ہے۔ دُعا ہے ربِ کریم سے کہ وہ وقت کبھی نہ آئے اور ہم ہمیشہ اس محسن مہینے کی قدر کرتے رہیں! آمین
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ