میرا دوست “مُراد نامُراد” سب سے باکردار انسان ہے۔ اس نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ تک نہیں لگایا یہ اور بات ہے کوشش بہت کی مگر ناکامی ہوئی۔ چند ایک بار خواتین نے اسے “ٹچ” کیا جس میں مُراد کی رضامندی شامل نہیں تھی کیونکہ وہ “ٹچ” اُسے “چپیڑیں مارتے” وقت کیا گیا تھا۔ “پی کے” فلم دیکھتے وقت جیسے ہی “ہِلتی گاڑی” کا سین آیا، “مُراد نامُراد” نے حلفیہ بیان دیا کہ اُس نے ایسا بیہودہ پن کبھی زندگی میں نہیں کیا ظاہر سی بات ہے کہ اس کے پاس کار ہے نہیں اور چوبیس انچ کے سہراب سائیکل پر “ہلتا سین”ہونا ُمشکل ہے۔ مُراد کو کسی لڑکی نے کبھی “ہائے ہینڈسم” کہہ کر نہیں بُلایا کیونکہ وہ ہینڈسم ہے ہی نہیں۔ لیکن وہ ان باتوں پر کبھی دل برداشتہ نہیں ہوا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مملکتِ خداداد میں جو بھی آدمی “باکردار” ہے نوے فیصد چانس ہے کہ اس میں مُراد کے جیسی مندرجہ بالا، “داؤ نہ لگنے” والی “خصوصیات” موجود ہونگی اور باقی دس فیصد میں سے اکثر حکیم کے مریض ہونگے۔ ایسے خدا کے ولیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو خدا کے ڈر سے, اختیار ہونے کے باوجود گُناہوں سے کنارہ کرتے ہیں۔
آدمی کی فطرت عجیب ہے۔ وہ دوسرے آدمی کی دولت، شہرت اور ترقی کو تو برداشت کر سکتا ہے لیکن دوسرے شخص میں صنفِ مخالف کی دلچسپی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ چُبھن سینے میں اٹکی رہتی ہے اور کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں باہر ضرور نکلتی ہے۔
میاں برادران کی حُسن پرستی مشہور ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کی پانچ شادیاں اور مُتعدد معاشقے مشہور ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ گرلز کالج یا یونیورسٹی کے کانووکیشن میں جاتے ہیں تو حسین لڑکیاں اپنی ڈگری لینے مُلازمہ کو بھیج دیتی ہیں تاکہ “دیدہ وری” اور “عشائیے” کی دعوت سے محفوظ رہ سکیں۔ اب تو اُنکے ہونہار فرزند بھی “کارنامے” دِکھا رہے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کی ٹھرک انکے اندر ہی رہ جاتی ہے۔ طاہرہ سید نے بھی بس گانے سُنانے تک ہی رکھا اور کم بارکر نے انکے جذبات کا پول دنیا کے سامنے کھول دیا۔ انکے “الحمدللّٰہ” بیٹے نے دو شادیاں کی ہیں اور وہ “باوضو” ہوکر ٹیکس بچانے کی کرپشن کرتے ہیں۔ میں کسی خاتون کا ذکر نہیں کرنا چاہوں گا کیونکہ بہنیں بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔
عمران خان کا شمار کسی ایک دہائی یا کسی ایک صدی نہیں بلکہ میلینئیم کے چند اسٹار کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ فنکار یا کھلاڑی کی شکل اور جسامت “نوازالدین صدیقی” جیسی بھی ہو تو بھی لڑکیاں مرتی ہیں پھر عمران خان جیسے خوبرو مرد کے بارے میں کیا کہنا۔ فرض کریں کہ عمران خان کی سیتا وائٹ سے واقعی بیٹی ہے اور یہ بات اسے بدکردار بناتی ہے تو نواز شریف نے کرسٹینالیمب سے جو “بیٹی پیدا کرنے والا” تعلق قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ کیا تھا؟ شوکت عزیز نے جو کونڈولیزا رائس سے “عاشقی کرتے ہوئے” بےعزتی کروائی تھی (افسوس ہے کہ وزیراعظم کی اتنی گندی شکل سے بےعزتی) وہ کیا تھی؟ زرداری کی رالیں “سارا پیلن” پر کیوں لٹک رہی تھیں؟ کیا کردار کی تعریف یہ ہے کہ جو خاتون سے تعلقات بنانے میں”کامیاب” ہوجائے وہ بدکردار اور جو “ناکام” ہوجائے وہ باکردار؟ پاکستان کی گلی گلی میں لڑکیوں سے بےعزتی کروانے والے، “دل جیت لینے والوں” کو عذاب کی وعیدیں سُنارہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہر شادی شدہ آدمی کو نماز کا پتا ہو نہ ہو، تین مزید شادیوں کے “اسلامی حق” کا پورا علم ہوتا ہے اسی طرح “نامُراد عاشقوں” کو زنا کی ساری سزائیں یاد ہوتی ہیں جو وہ “کامیاب عاشقوں” کو گاہے بگاہے سُناتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ جو گُناہ ہے وہ گُناہ ہے اور رہے گا۔ سوال صرف مُنافقت کا ہے۔ جس نے گُناہ کی کوشش کی اور ناکام ہوا وہ اس سے زیادہ نیک پاک نہیں جو اُسی گُناہ میں کامیاب ہوا۔
ایم کیو ایم کے بابر غوری کے “حُسن” سے لے کر، نواز شریف کی “وجاہت” تک سب عمران خان کی سیاسی مقبولیت سے زیادہ اسکی “خواتین میں مقبولیت” پر دانت کچکچاتے ہیں۔ یہ احساس کمتری اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ عمران خان کی عمر کا ہی میاں جاوید لطیف پریس کانفرنس میں کسی کا بہنوں کا عمران خان سے مبینہ تعلق بنا دیتا ہے۔ ایسی باتیں گلے کے ٹُچے آپس میں لڑتے ہوئے کرتے ہیں۔ سُنا ہے کہ لوگ مُصیبت یا غُصے اپنا اصل چہرہ، اپنی اوقات دکھا دیتے ہیں۔ مُصیبت میں کسی قطری کا خط کہ “ہم تو جی لوگوں کے ٹُکڑوں پر پلتے رہے ہیں” اور غصے میں دوسروں کی بہنوں کا ذکر، اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ پورے مُلک کو کرپشن سےکھا جانے والے، لیکن اپنی شکلوں اور کرتوتوں کے باعث خواتین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام “باکردار”، اُس انسان کو جس کے دامن پر کرپشن کا ایک چھینٹا تک نہ ہو اور دُنیا جس پر مرتی ہو، اُسے “بدکردار” ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔ دُہائی ہے دہائی!!!
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ