سیاسی اور مذہبی انتشار

آج فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کو اٹھارہ دن ہوگئے ہیں۔ دھرنا, ختمِ نبوت کے قانون میں “چُپکے سے” کی گئی ایک تبدیلی کے خلاف ہے۔ مذہبی جماعتوں کے مُطابق یہ بہترین وقت ہے تاکہ ربیع الاوّل کے مہینے میں رسولِ کریم صلی الّلہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا حق ادا کیا جاسکے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ گرم سیاسی لوہے پر “مذہبی چوٹ” مارنے کا صحیح موقع ہے۔ وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور انکی والدہ کا سیاسی پسِ منظر ہونےکے ساتھ ساتھ گہرا مذہبی تاثر بھی ہے، اسی لئے احسن اقبال سوچ سمجھ کر قدم اٹھا رہے ہیں جبکہ جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے توہینِ عدالت کا نوٹس بھی آگیا ہے جو کہ یقیناً ایک احسن عمل ہے تاہم محترم جسٹس کے ممتاز قادری کیس میں جذباتیت اور حالیہ ٹی وی پروگرام میں شایانِ شان قدم اٹھانے کی بجائے رونا دھونا انکی صورتحال کو مشکوک بناتا ہے۔ اب فرض کریں کہ محترم جسٹس شوکت پر کوئی کرپشن، اقربا پروری یا اختیارات سے تجاوز کے الزامات پر کوئی فردِ جُرم عائد ہوتی ہے، تو کتنا آسان ہوگا اسے “عشقِ رسول” کی سزا کے کھاتے میں ڈالنا اور پھر مذہبی جماعتوں کے “دمادم مست قلندر” کے بعد سارے کیس صاف کروانا۔ مملکتِ خداداد “قربانیاں”دینے والوں سے بھری پڑی ہے۔ زرداری اور شریفین جمہوریت کے لیے “قربانیاں” دیتے آرہے ہیں، چیف جسٹس نے بیٹے کی کرپشن کی ڈِش پر انصاف کی خاطر “قربانی” کا چاندی کا ورق لگا دیا بس جنرل رضوان اختر ایسی کسی “قربانی” کے ذکر کے بغیر ہی نکل لیا۔ اور اب حاضرِ خدمت ہے “غلامی رسول میں کرپشن کا الزام بھی قبول ہے” کے نام کی قُربانی کی تیاری۔

مسلمان ہونے کے کیے ختمِ نبوت پر ایمان لازمی ہے اس لیے راقم بھی اس پر اٹل ایمان رکھتا ہے تاہم اسے ہتھیار بنانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ جب قادیانی غیر مسلم قرار پائے تو کیا ان سے حسنِ سلوک اسلام کی تعلیم ہے یا کہ انکی قتل و غارت؟ کسی بھی غیر مسلم سے نفرت کی تعلیم کونسی مذہبی کتاب میں لکھی ہے؟ جو مسلمان امریکہ یا یورپ میں جاکر اپنی خدمات پر خراجِ تحسین حاصل کرنے کے داعی ہوتے ہیں کیا انھیں نہیں لگتا کہ قادیانیوں کو بھی انکی خدمات پر پاکستان میں خراجِ تحسین پیش کیا جائے؟ یو ٹیوب ایسے مومنین کی ویڈیوز سے بھری پڑی ہیں جو مدرسوں میں بچوں اور بچیوں کی عصمت دری کرکے قتل کردیتے ہیں (بقول انکے شیطان کے زیر اثر تھے ورنہ ظاہر ہے کہ مومنین تو یہ کر نہیں سکتے) اور وہ بڑے مطمئن ہوکر ویڈیو بنوا رہے ہوتے ہیں کہ انھوں نے الّلہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی اور مذہبی ایمان کے مطابق وہ اتنا ذلیل کام کرکے بھی کچھ عرصہ دوزخ میں کباب بن کر “فائنلی” بخشے جائیں گے جبکہ قادیانی ہر حال میں ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جائے گا۔ آپ خواہ مذہبی ہوں یا سیکولر، اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ اپنے بچوں کی دیکھ بھال (بے بی سٹنگ) کے لیے کسی ایسے مسلمان کو رکھیں گے جس پر “شیطان چڑھ چکاُہو” اور پتا نہیں کب شیطان دوبارہ چڑھ جائے یا ایسے قادیانی یا غیر مسلم کو جس کی کوئی ایسی مجرمانہ ہسٹری نہ ہو اور ایمان نہ ہونے کے باعث شیطان کی توجہ کے قابل بھی نہ ہو۔ انسانی تاریخ گواہ ہے اسلام کے پھیلاؤ کی وجہ مسلمانوں کا نیک عمل، عفو و درگزر، ایمانداری، سچ، امر بالمعروف بنے۔ آج آپ کسی ایک عام مسلمان کا طرزِ عمل دیکھیں اور ایک قادیانی کا اور آپ کو پتا چل جائے گا کہ قادنیت کے پھیلاؤ کی اصلی وجہ وہ مسلمان ہیں جو لوگوں کو اسلام سے متنفرُکرتے ہیں اور اسلام کے نام پر دھبہ ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیکر شکست نہیں دی جا سکتی ہے، اگر دی جاسکتی ہے تو حضور پاک کی عملی زندگی کے مطابق زندگی ڈھال کر، نہ کہ صرف داڑھی رکھ کر اور شلوار اونچی کرکے۔ قادیانی تو بہت قلیل ہیں، مذہب کو الگ خطرہ تعلیمی اداروں میں لادینیت کی جانب جوق در جوق مائل لوگ ہیں جو مذہب کو سخت بنا دینے والے لوگوں کے باعث مذہب سے باغی ہو چکے ہیں۔ لادینیت کے اس ٹائم بم کا کسی اور کالم میں تفصیلی ذکر کیا جائیگا۔

ان سب حقائق کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں اور پارلیمنٹ بھی یہ بل پاس کرچُکی ہے تو مذہبی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر، اس بل سے چھیڑ چھاڑ لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے مترادف ہے۔ حکومت کو اس حرکت پر جواب دینا چاہئیے۔ مذہبی عناصر عموماً غیر لچکدار ہوتے ہیں اور ختمِ نبوت پر تو کوئی کمپرومائز بنتا ہی نہیں۔ دھرنے کا حل صرف یہی ہے کہ کسی ایک کو قصوروار قرار دئیے بغیر، وزارتِ قانون میں وزیر سے لیکر سیلشن آفیسر تک سب پر جھاڑو پھیر دی جائے اور تبادلے کر دئیے جائیں کیونکہ اگر کسی ایک کو نامزد کیا گیا تو کوئی اور ممتاز قادری کی طرح نامزد ملزم کی جان لے سکتا ہے۔ سیاسی انتشار، مذہبی بنیادوں تک پہنچانا، اس کینسر سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جو اپنی جگہ سے جسم کے دور دور تک کے حصوں میں پھیل جاتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی اب حکومت پر بزور دے رہی ہے، گویاایک اور لال مسجد کا سانحہ برپا کرنے کے درپے ہے۔ مُلک مزید تشدد کا حامل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو یہ مسئلہ بات چیت سے حل کرنے کا وقت دینا چاہیے۔ اس دھرنے سے اور کچھ نکلے یا نہ نکلے، ایک بدتمیز، گالیاں نکالنے والا شخص مذہبی لیڈر بن کر نکلے گا اور ایسے کم دماغ لمبی زبان لوگ اسٹیبلشمنٹ کی “مرغوب غذا” ہوتے ہیں! رہے نام الّلہ کا!!!!

پسِ نوٹ: ایک نا اہل شخص کو پوری پارلیمنٹ نے پارٹی صدر بننے کے لیے دوسری بار اہل قرار دے دیا۔ اب بھی اگر کسی کو جمہوریت کا حُسن نظر نہیں آرہا ہے وہ اپنی آنکھوں میں “فائزہ بیوٹی کریم” لگائے!

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *