انسانی تاریخ میں کوئی بھی نظریہ، تبلیغ یا پیغام دو بنیادوں پر مقبول ہوتے ہیں؛ ایک پیش کرنے والے کی مقبولیت اور نیک نامی جسے ہم کریڈیبیلٹی یا “ویہار” بھی کہتے ہیں اور دوسرے اس نظریے، آئیڈیے میں کوئی نئی بات جو دل اور دماغ کو لگے، اسے جدید زبان میں key
selling factor کہتے ہیں اور اس نئے پن یا جدیدیت سے جو واضح فائدہ یا مثبت تبدیلی نظر آئے اسے added value کہتے ہیں۔ کیلیفورنیا کی سیلیکون ویلی کا نامی گرامی تاجر، اور “پے پال” کا بانی ، پیٹر تھیل اپنی کتاب “زیرو ٹو ون” میں لکھتا ہے کہ “ایک وقت تھا جب لوگ آن لائن منی ٹرانسفر کو مذاق سمجھتے تھے لیکن پھر پے پال کی کریڈیبیلٹی اس حد تک بڑھ گئ تھی کہ چین سے ایک انجان کاروباری شخص نے بغیر پوچھے، بغیر رسید کے پانچ ملین ڈالرز اپنا حصہ ڈالنے کے لئے بھیج دئیے اور ہم نے بڑی مشکل سے ناں کرکے اسے واپس کئے “۔ یہ تھی پیٹر پال کی کریڈیبیلٹی یا ویہار اور یہ تھی پراڈکٹ کی جدیدیت اور نیاپن جس سے صارف کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی تو یہ مقبول بھی ہوئی۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قریش کے ایک انتہائی معزز انسان اور محبوبِ خُدا، محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میں تمھیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک بہت بڑی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرلو گے، سب نے یک زبان ہوکر کہا بے شک کیونکہ آپ صادق ہیں اور چالیس سالہ زندگی میں کبھی ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولا! یہ ہوتی ہے کریڈیبیلٹی، یہ ہوتا ہے ویہار اور یہ ہوتا ہے اعتبار؛ یاد رہے کہ اس وقت آپ بے شک الّلہ کے محبوب تھے لیکن لوگوں کی نظر میں آپ ایک عام لیکن صادق اور امین انسان تھے پھر اس کریڈیبیلٹی کے بعد جو جدیدیت، نئی خوبی تھی وہ تھی اسلام کے پیغام میں مساوات اور برابری کا عنصر؛ افریقہ کے غلاموں سے لیکر ہند کے شودر تک برابری کے اس key buying factor کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے کہ ہم کم ذات بھی مسلمان بن کر دوسرےانسانوں کے برابر ہوں گے، ہمارے بھی بیوی بچوں کی عزت ہوگی اور اسلامی انصاف (added value)کے باعث، کوئی امیر یا اعلیٰ خاندان کا شخص ظلم نہیں کر پائے گا۔ مساوات کے عمل کی جدیدیت کا آپ اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے ایک حبشی غلام کے بارے فرما دیا گیا تھا کہ وہ جنت میں داخل ہونے والا پہلا انسان داخل ہوگا اور دوسری طرف امریکہ جیسے ترقی یافتہ مُلک میں ان حبشی غلاموں کی خریدو فروخت اور ظلم پر 1926 میں بین لگا اور آج سے محض پچاس سال پہلے کی سول تحریک سے پہلے تک ریستورانوں کے باہر لکھا ہوتا تھا، “کتے اور کالے اندر نہیں آسکتے”۔ ہمارے شہر کے ایک درویش صفت انسان ،محمد اسد درانی، جیل میں قیدیوں کو تبلیغ کرتے ہوئے جب حضرت بلال اور اسلامی مساوات کا بتاتے ہیں تو کیئ افریقی امریکیوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ ستر اسی سال کی عمر کے کالوں کو بخوبی یاد ہے کہ امریکہ میں ہی نصف صدی پہلے تک انکے ساتھ کیسا جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا جبکہ اسلام صدیوں پہلے دلوں کو چھو لینے والی محبت کے رشتے سے انسانوں کو باندھ کر رنگ و نسل کے فرق کو مٹا چکا تھا۔
اب آتے ہیں ہم جیسے گناہگاروں کی طرف۔ کیا ہے ہمارا اعتبار؟ کیا ہے ہماری ترقی ؟ چودہ سو سال پہلے کا جدید اسلام آج برائے نام عشق کے نام پر جاہلیت کا نمونہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہم سنت داڑھی رکھ کر، عمامہ باندھ کر قسمیں کھاتے ہوئے ملاوٹ زدہ دو نمبر مال بیچتے ہیں، دوسروں کے مال پر قبضہ کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، میرٹ کی پرواہ نہیں کرتے لیکن ہاں نماز پنج وقت، تکبیرِ اولیٰ کا خیال، مسجد میں سنگ مرمر لگوانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور مذہبی محفلوں میں جذب کے عالم میں چیخیں مارتے ہیں۔ کیا یہ توہینِ رسالت سے کم ہے کہ رحمت اللعالمین کی سنت جیسا چہرہ بنا کر کرتوت شیطان جیسے ہوں؟ آج کے دور میں ایسے باعمل مسلمان کتنے ہیں جن پر اعتبار کیا جا سکے؟
پھر آتی ہے ترقی اور جدیدیت؛ جو مذہب چودہ سو سال پہلے تجارت سے لیکر جنگوں تک میں جدید حربے استعمال کرتا رہا وہاں آج کس سنت کی پیروی کی جارہی ہے؟ سنت لیڈر بناتی ہے، سنت کفار سے موجودہ حالات کے مطابق فنِ حرب اور ٹیکنالوجی میں مقابلہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ سنت، کفار کی بنائی بندوقوں کو ہاتھ میں لیکر، کفار کی بنائی گاڑیوں اور کفار کے بنائے کنٹینروں پر بیٹھ کر اپنے ہی لوگوں کو یرغمال بنانے کا نام نہیں۔ کاش کہ عاشقانِ رسول کچھ ایجاد ہی کرسکتے؟ پورے امریکہ میں سب سے زیادہ ہسپتال چرچ نے بنائے ہیں۔ اگر نئی ایجادات کے لئے رقم چاہئے ہو تو چرچ فنڈ کرتا ہے اور ہمارا چندہ کس کام آتا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عملی پیروی کی بجائے، عشق میں جھومنا آسان ہے۔ ان آنکھوں نے دیکھا ہے کہ عاشقانِ رسول کہلانے والے دس دس دن اعتقاف میں رہتے رہے اور بوڑھے ماں باپ گرتے پڑتے سودا سلف لاتے رہے۔ جوان بہنیں بغیر جہیز کےبوڑھی ہوجاتی ہیں اور یہ عاشقان، کام کاج کرکے انکی شادی کرنے کی بجائے انھیں جنت میں گھر بنانے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا میں پانچویں جماعت کے سرٹیفیکیٹ سے لیکر مدرسے کی سند تک چند سالوں کی محنت اور کچھ سیکھنے کے بعد ملتی ہے اور یہاں چند دن شیو بڑھا کر آناٗ فاناً عاشق بن جاؤ اور جو دل چاہے کرو؛ اپنے ساتھ مذہب کا بھی نام نیچا کرو۔
ربیع الاول کے مبارک مہینے میں آئیں ہم یہ عہد کریں کہ آقائے دو جہاں کے عاشق ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے ہم اپنا اعتبار قائم کریں۔ لوگوں کو پتا ہو کہ یہ عاشقِ رسول ہے تو جو بھی بیچ رہا ہوگا، خالص ہوگا اور جائز منافع ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوں انکی ہر قسم کی مدد کی جائے تاکہ نئ ایجادات ہوں۔ عاشقانِ رسول کو دوسری قوموں سے ایسے ہی بڑھ کر ہونا چاہئیے جیسے سرورِ کائنات دوسرے نبیوں سے بڑھ کر تھے اور ہیں۔آقائے دو جہاں پر لاکھوں سلام
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ