جمہوریت کا باقاعدہ آغاز 508 قبل مسیح میں یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہوا۔ اس وقت کے دانشوروں میں قدیم یونان کی دیومالائی داستانوں کی جنگوں پر مباحثے ہوئے اور سب دانشور اس بات پر متفق تھے کہ جنگوں کی سب سے بڑی وجہ بادشاہوں کی ذاتی آنا اور رنجش تھی۔ اسکی مثال 1200 قبلِ مسیح میں لڑی گئ “ٹرائے” کی جنگ کی دی جاتی تھی جس میں مائیسینیا کے بادشاہ ایگامیمنن نے ٹروجن شہزادے ہیکٹر سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ طاقت کا گھمنڈ اور چھوٹے بھائی کی تذلیل کا رنج تھا۔ اس گھمنڈ اور رنج نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی۔
پانچویں صدی قبلِ مسیح کے اوائل میں ہی پرشیا (موجودہ ایران) کا بادشاہ سائرس قتل و غارت کی مثالیں قائم کر رہا تھا۔ یہ بھی سب ذاتی آنا اور پرخاش کا نتیجہ تھا۔
ان سب حالات کے پیشِ نظر جمہوریت کی ضرورت محسوس کی گئ۔
قدیم یونان سے چلتی ہوئی جمہوریت ٹوٹی پھوٹی حالت میں انگریزوں کی کشتیوں پر بیٹھ کر برصغیر آ پہنچی اور کوئی ستر سال سے اس خطے میں نافذ ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے یہ ستر سالہ کم سن بچہ ہے جو طالع آزماؤں کی دست درازی (molestation) کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ مملکتِ خداداد میں کم سن بچوں پر دست درازی چند”مخصوص” “استادوں” کا مرغوب مشغلہ ہے۔
عمران خان کی سیاست میاں صاحبان کی سیاست کے دس سالوں بعد شروع ہوئی اور جتنی مقبولیت کے ساتھ وہ سیاست میں آیا، دس سال کا فرق کچھ زیادہ نہیں۔ کوئی بھی عقلمند انسان عمران خان کی ہر بات سے مکلمل اتفاق نہیں کرسکتا لیکن کرپشن پر اسکا موقف اٹل ہے۔ یہ موقف اس لئے اتنا اہم اور جاندار ہے کیونکہ ہمارے ملک کے سارے وسائل اور بیرونی قرضے “بڑے پیٹوں” کی نظر ہو جاتے ہیں۔ انتہائی باوثوق رپورٹوں کے مُطابق اگر پاکستان کرپشن کے ذریعے کمائی گئ دولت سوئس اور کریبین بینکوں سے واپس حاصل کرلے تو نہ صرف تمام اندرونی بیرونی قرضے یک لخت اُتر جائیں گے بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں تعلیم اور علاج کی بہترین سہولیات میسر ہو سکیں گی۔ ملک و قوم کے لئے اس سےزیادہ فائدے کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
پانامہ لیکس حکمرانوں کی کرپشن کے آئس برگ (سمندر کے تہہ میں برف کا پہاڑ) کا صرف ایک ٹیلہ ہے۔ “بات نکلے گی تو دور تک جائےگی”، مزید کرپٹ پکڑے جائیں گے اور بھلا ہوگا ملک و قوم کا۔
تاہم اسلام آباد بند کر دینے کا اعلان دل دہلا دینے والا تھا اور میں ذاتی طور پر حیران تھا کہ اگر ایسا نادان آدمی ایٹمی ملک کا وزیراعظم بن گیا تو کتنے خطرے کی بات ہوگی، لیکن اپنے مقصد، “استعفیٰ یا احتساب” میں سے احتساب پر رضامند ہو کر پیچھے ہٹ جانا اصلی لیڈر کی پہچان ہے۔ جو لوگ اپریل میں نواز شریف کے کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں یا سلیم صافی “شریف خان اور خطرہ خان” کے سڑے ہوئے لطیفے سُنا رہا ہے، بھول گئے کہ میاں صاحب 1956 سے احتساب کی بات کر رہے تھے، گویا جیل میں چور کہیں کہ ہمیں آزاد کرو، پہلے 1956سے لیکر آج تک کے سارے چور پکڑو پھر ہماری باری!!!
سپریم کورٹ اب اس کیس کو ہنگامی بنیادوں پر سننے کو تیار ہوئی ہے اور سچی بات ہےکہ اگر عمران خان اسلام آباد بند کرنے کا اعلان نہ کرتا تو سپریم کورٹ اتنا تیز ایکشن لینے کی بجائے مولانا علامہ حضرت چیف جسٹس ظہیر جمالی کی تبلیغانہ بیان بازی پر اکتفا کرلیتی۔
عمران خان نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کوئی یونانی بادشاہ کی طرح آنا پرست نہیں، اسے کوئی ذاتی رنجش نہیں، وہ ایک لیڈر ہے جو اپنے پارٹی میں بھی جمہوریت کو ترجیح دیتا ہے، ملک کے عظیم تر مفاد کے لئے جھک سکتا ہے، واپس لوٹ سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف اپنی جیت پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
اگر کالم پسند آئے تو شئیر کیجئے!
مزید کالم اور تجزیوں کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں، شُکریہ