عمران یا پاکستان

سپریم کورٹ کے حُکمِ پر بنائی گئ جے آئی ٹی کا سیاسی نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے لیکن اس سے بہت سے لوگوں کی اوقات سامنے آگئ ہے۔ “حاجی”” نمازی” اسحاق ڈار کی بدزبانی اس بات کا ثبوت ہے کہ غصہ آتا اکیلا ہے لیکن جاتے وقت آپکی شخصیت، آپکا وقار اور مصنوعی تہذیب کے کپڑے اُتار کر لے جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مریم نواز اسی طرح قابلِ عزت ہے جیسے کسی کی بھی بہن بیٹی لیکن اُسکی جے آئی ٹی میں پیشی کو ایسے اچھالا جارہا ہے جیسے خدانخواستہ وہ کوئی “آدھی قلندر” ہو جبکہ شرمیلا فاروقی سے لیکر بینظیر بھٹو کی کوئی عزت ہی نہ ہو جن کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ اسحاق ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان شوکت خانم کے لئے چندہ لینے کے لئے میرے دفتر کے باہر گھنٹوں انتظار کرتا تھا۔ یہ سُن کر حقیقتاً آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ ایک ہیرو قوم کے لئے کتنا جھُکا ورنہ اسحاق ڈار کا کیا حسب نسب کہ کبھی ورلڈ چیمپئین سے ہاتھ تک ملانے کا سوچ بھی سکتا ہو۔

اسحاق ڈار اور شریفین کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ میچور لوگوں کی عمران خان کے لئے پسندیدگی دل کے ساتھ ساتھ دماغ سے ہے۔ وہ کپتان جو کمزور ٹیم کے ساتھ قائدانہ صلاحیتوں اور مضبوط کردار کے باعث ورلڈ کپ جیت گیا، دماغ کہتا ہے کہ جب وہ مُلک کی سیاسی ٹیم کا کپتان بنے گا تو کمزور اکانومی کے پاکستان کو معاشی ورلڈ چیمپئن بنا سکتا ہے۔ جس مُلک میں لوگ ٹائیفائڈ جیسی معمولی بیماری سے آنتیں پھٹ کر مر جاتے ہیں اسی مُلک میں تین کینسر ہسپتال بنا دئے تو گمان غالب ہے کہ صحت اور علاج کی سہولتیں اُسکے دورِ حکومت میں بہتر ہوں گی۔ جس مُلک میں شرح خواندگی بہت کم ہے وہاں نمل یونیورسٹی بنا کر بریڈ فورڈ سے الحاق کردیا تو یقیناً وزیراعظم بننے کے بعد تعلیمی نظام میں انقلاب لے آئے گا اور مزید بہت کچھ۔ان سب خوابوں کے ساتھ ساتھ یہ بات ذہن میں رہے کہ عمران کے لئے ہماری پسندیدگی پاکستان کے لئے ہے کیونکہ وہ ہمارے مُلک کے لئے بہتر لگتا ہے۔ لیکن اگر وہ بھی ہمارے مُلک میں بہتری نہ لا سکا تو کم از کم سیاسی طور پر اہم یا پسندیدہ نہیں رہے گا۔

پاکستان کے سیاسی فلک پر گرج چمک کے ساتھ تیز بارش اور “کہیں کہیں” (جیسا کہ رائے ونڈ) بجلی گرنے کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔ جے آئی ٹی نے سارے ن لیگیوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ تاہم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ سب کسی “اسکرپٹ” کا حصہ ہو اور اندر کھاتے جے آئی ٹی کے ساتھ کوئی ڈیل چل رہی ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جے آئی ٹی اپنی تمام تر نیک نیتی اور کاوشوں کے باوجود کوئی ٹھوس ثبوت ڈھونڈنے میں ناکام رہے اور شریفین کو ہمیشہ کے لئے کلین چٹ مل جائے۔ گمان یہی غالب ہے کیونکہ مُشرف کے کارندے بھی کچھ نہ ڈھونڈ پائے۔ شریفین یقیناً کرپٹ ہیں لیکن وہ “کھُرا” نہ چھوڑنے کے ماہر بن چُکے ہیں۔

دُوسرا پہلو یہ ہے کہ شریفین بے شک کرپٹ ہیں لیکن انکی حکومت مضبوط ہے اور وہ بہرحال ہمارے کرپٹ معاشرے کے ووٹ لیکر آئے ہیں؛ اور اتنی اکثریت ، کہ انتخابات کے فوراً بعد جب جمشید دستی نے اپنی دو سیٹیں “بیچنے” کی کوشش کی تو شہباز شریف نے کہا “ضرورت نہیں” ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط حکومت ہمیشہ ناگوار گُزرتی ہے اور وہ کوئی لُولی لنگڑی حکومت تشکیل دینا چاہتی ہے تاکہ اپنی من مانی کرتی رہے۔ جس طرح پیپلز پارٹی کے “مہا کرپٹ ” پی ٹی آئی کا رُخ کررہے ہیں اس سے موسمی پرندوں کے رُجحان کا اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے سخت موسم میں “دانہ” کہاں مل سکتا ہے یا پھر “کوئی” انھیں یقین دہانی کروا رہا ہے کہ آؤ تمھاری موجیں کروائیں؟؟؟؟؟ دھرنوں سے لیکر پانامہ لیکس اور وہاں سے لے کر جے آئی ٹی تک، یہ بساط کہیں اور، کسی اور نے بچھائی ہے۔ “بادشاہ” کو پیادہ اور “وزیر” کو گھوڑا بنایا جا رہا ہے۔ شطرنج کے “کھلاڑی” کے نا چاہتے ہوئے بھی فائدہ ن لیگ کو ہوگا؛ جے آئی ٹی سے بچ گئ تو ہمیشہ کے لیے کلین چٹ، “شہید” ہوگئ تو سارے رونے دھونے اور “سمپیتھی فیکٹر” کے باعث کرپشن اور نااہلی کو بھُلا کر لوگ ووٹ دیں گےاور ان عوامل کے باعث اگلے الیکشن میں بھی یہ اتنی سیٹیں لے جائے گی کہ پی ٹی آئی حکومت بنانے کے لئے ہمیشہ دوسری جماعتوں کی محتاج رہے گی، کبھی اسٹیبلشمنٹ تو کبھی پیپلز پارٹی بلیک میل کرے گی۔ قوم کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا کوئی بڑا “کھلاڑی” شریفین کا کانٹا نکالنا چاہتا ہے یا کمزور حکومت بنا کر عمران خان کی نہ جھُکنے والی فطرت کو توڑنا ؟ اور یا پھر دونوں مقاصد بیک وقت حاصل کرنا۔

بہتر یہی ہے کہ ن لیگ پانچ سال پورے کرکے “طبعی موت” مرے۔ عمران خان کو باکردار سیاستدانوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ “گوندل” یہ “چن” یہ “ڈاکٹر صاحبہ” ناقابل اعتبار ہیں۔ ان جیسوں کو ٹکٹ دے کر جتوانا اپنے سر پر “جان بوجھ کر” گر جانے والی چھری لٹکانے کے مُترادف ہے۔ عمران خان سے محبت پاکستان کے لئے ہے، اُسکی سیاست سے ہمارے مُلک میں بہتری آئے گی تو یہ محبت رہے گی ورنہ اگر وہ کسی “بڑے کھلاڑی” کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا اور موقع ملنے کے باوجود وہ کچھ نہ کرسکا تو آخری اُمید بھی دم توڑ دی گی اور یہ محبت ختم ہو جائے گی۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *