ماں اس دُنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور گورے سے کالے تک، ہر رنگ ونسل کے انسان اس رشتے کی قدر کرتے ہیں؛ کچھ مرتے دم تک اور کچھ بلوغت تک۔ تاریخ کی لکھی کتابوں میں درد کی انتہا کی مثال دردِ زہ سے دی جاتی ہے کہ فلاں کو اتنی تکلیف ہوئی جتنی عورت کو بچہ جنتے وقت ہوتی ہے اور اس درد کی برداشت کو ماں کی عزت کی وجہ قرار دیا گیا۔ اب جدید طریقوں اور “ایپی دیورل” انجیکشنز سے بچہ پیدا کرتے وقت تکلیف نہیں ہوتی لیکن ماں کی قدر میں کمی نہیں آئی۔ پھر ماں کے دودھ کو اس بانڈنگ یا تعلق کا باعث سمجھا گیا لیکن مغرب کو چھوڑیں، پاکستان تک میں محض چالیس فیصد مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں مگر یہ “بانڈنگ” سو فیصد میں جُوں کی تُوں ہے۔ سردیوں میں ماں کا بچے کی وجہ سے گیلے بستر پر سونا یا رات کو جاگنا بھی اب نئ پلاسٹک بیڈ شیٹ کی وجہ بہت کم ہوگیا ہے۔ سب سے بڑھ کر جو ماں کا بچے کو نو مہینے پیٹ میں رکھنا اور اس کی وجہ سے کئ بار اپنی جان تک خطرے میں ڈالنا ہے اس کا متبادل بھی سروگیٹ ماں (surrogate mother) کی شکل میں آگیا ہے۔ اس عمل میں مرد کا سپرم اور عورت کا اووا جسم سے باہر ملا کر ایک اور عورت کی بچہ دانی میں (معاوضہ دیکر)رکھ دیتے ہیں۔ اداکار عامر خان اور کرن کا بچہ آزاد خان جبکہ اداکار شاہ رخ خان اور گوری کا بچہ آبرام خان بھی اسی طریقے سے پیدا ہوئے ہیں لیکن انکی بھی ماں سے بانڈنگ اور پیار میں فرق نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ ماں اور بچے کا رشتہ غیرمشروط اور انمول ہے اور یہ ماں کی کسی بھی ایسی قربانی کا باعث نہیں جو کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔
رضوی صاحب اپنی والدہ کی بہت عزت کرتے ہیں، انکی ہر بات مانتے ہیں۔ فرض کریں کہ رضوی صاحب اپنی بیوی، بیٹا، بیٹی اور ماں کے ساتھ مری سے اسلام آباد آرہے ہوں اور والدہ محترمہ اصرار کریں کہ وہ گاڑی ڈرائیو کرنا چاہ رہی ہیں تو رضوی صاحب کیا کریں گے؟ ستّر سالہ خاتون، کمزور نظر، خطرناک سڑک اور اوپر سے امی جان نے کار تو کیا کبھی سائیکل نہیں چلائی۔ ساری محبت اور عزت کے باوجود، رضوی صاحب والدہ محترمہ کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور انکار کردیں گے۔ تاہم وہی رضوی صاحب اپنی والدہ کی بات بلا چوں چراں مان لیں گے اگر انکی والدہ کسی نکمے اور آوارہ نوجوان سے انکی بیٹی کا رشتہ طے کردیں۔ گلی گلی پھرنی والی رشتہ کروانے والی عورتوں کو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ گھر میں کس کی “چلتی ہے” اور اس کو شیشے میں کیسے اتارنا ہے۔ بوڑھوں کو “خراب سودا” بیچنا زیادہ آسان ہے اور رشتہ کروانے والوں کو “ناکارہ مال” بیچنے کا معاوضہ بھی زیادہ ملتا ہے۔ رضوی صاحب کی بیٹی سوچے گی کہ اس سے اچھا تھا کہ ابا جان ، دادی کو گاڑی چلانے دے دیتے اور وہ ایک بار ہی مر جاتی، نکمے اور آوارہ شوہر کے ساتھ روز تِل تِل مرنے سے یہ اچھا ہوتا۔
عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بہت سے مرد خطاب کریں گے اور بھاشن دیں گے، ٹویٹ کریں گے، پیغامات بھیجیں گے؛ لیکن یہ سب ایسا ہی ہے جیسے بھیڑیا، بھیڑوں سےمحبت اور خلوص بھرا خطاب کرے اور دل ہی دل میں دانت نکوسے۔ عورتوں کو خود دوسری عورتوں پر رحم کھانا ہوگا۔ ایک ماں کو رشتہ طے کرنے سے پہلے اپنی بیٹی سے صلح مشورہ کرنا ہوگا۔ ایک خالہ کو اپنے نکھٹو بھانجے یا ایک پھوپھی کو اپنے ہڈحرام بھتیجے پر بیٹی وارنےسے پہلے سو بار سوچنا ہوگا۔ ایک ساس کو اپنی بہو کو انسان سمجھنا ہوگا۔ جتنا چاہیں مرد کو الزام دے لیں لیکن اگر ایک آدمی کسی عورت پر جسمانی یا زبانی تشدد کررہا ہو تو لگ بھگ ستر سے اسی فیصد چانسسز ہیں کہ اسکے پیچھے بھی کسی عورت کا ہاتھ ہوگا۔ اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کتنے کیسسز میں کسی آدمی نے اپنی بیوی کو جلایا ہے اور کتنے میں ساس نے بہو کو؟ یقین مانئے ساس ہی ساس نظر آئے گی۔ کتنے واقعات میں دیور نے بھاوج کو طلاق دلائی اور کتنے میں نند نے؟ اسی طرح اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو چھوڑتا ہے یا دھوکہ دیتا ہے یا کسی اور کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو اسکی وجہ بھی کوئی اور عورت ہوتی ہے، مرد نہیں (کم ازکم پاکستان کے تین صوبوں میں )۔
پچھلے ہفتے کالم پڑھنے کے بعد نشتر میڈیکل کالج کی ایک سینئر ڈاکٹر جو امریکہ میں مقیم ہیں نے رابطہ کیا۔ وہ آبدیدہ تھیں۔ کہنے لگیں کہ کچھ ان ساسوں کے بارے میں لکھو جو اپنی اتنی محنت سے بنی ڈاکٹر بہوؤں کو گھر بٹھا دیتی ہیں کہ بچے پیدا کرو اور پالو حالانکہ مریضوں کا علاج کرتے، انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے بھی یہ ہوسکتا ہے۔ آج اس قابل لیڈی ڈاکٹر کو اسپیشلائزیشن کے امتحان دینے اور ٹریننگ حاصل کرنے کی اجازت ہوتی تو وہ امریکہ میں کارڈیالوجسٹ ہوتیں، چائلڈ اسپیشلسٹ ہوتیں اور سب سے بڑھ کر،،،،،،،،،،،،،، وہ خوش ہوتیں۔
یاد رہے کہ انھیں پریکٹس کرنے سے سسر یا میاں نے نہیں، ساس نے روکا۔
جب ایک عورت ایک ماں، دوسری عورت کا، بیٹی کا بھلا سوچے گی تو ہی عورت کی جیت ہوگی اور اسی عورت کو عورتوں کا عالمی دن منانے کا حق ہے۔ آپ سب کو یہ دن مُبارک ہو۔
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ