یہ بڑی عام سی بات ہے کہ کسی بھی اندوہناک واقعہ پر اربابِ اختیار “غم و غصہ” کا اظہار کرتے ہیں۔ کل سے مجھے ان الفاظ کا “حقیقی مطلب “معلوم ہو رہا ہے۔
غم و غصہ میں سے پہلے غم کا ذکر کر لیں۔ پولیس ٹریننگ کے اس سینٹر میں عموماً سپاہی لیول کے لوگ ٹریننگ کرتے ہیں اسی لئے سیکیورٹی اتنی ناقص ہوتی ہے کہ چار دہشتگرد سسرال سمجھ کر داخل ہوگئے۔ سپاہی لیول کے لوگ عموماً بڑی اور غریب فیملی کے پالن ہار ہوتے ہیں۔ درجنوں لوگوں کی ذمہ داری انکے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ ایسے جواں سال غریبوں کا خون رزق خاک ہو گیا۔ بلوچستان میں چھوٹی عمر میں شادی کی وجہ سے نجانے کتنی بچیاں بیوہ ہو گئ ہوں گی جن کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہ اُتری ہوگی۔ کتنے شیرخوار باپ کے سائے سے محروم ہو گئے ہوں گے!!!! الامان
اب آتے ہیں غم و غصہ کے دوسرے حصے غصے کی طرف۔
تین سو شیر جوانوں کی کچھار میں چار آدمی آتے ہیں اور ساٹھ لوگوں کی لاشوں کا ٹورنامنٹ کھیل کر سوا سو کو ادھ مرا کرکے مر جاتے ہیں اور ساتھ میں پاک فوج کا کمانڈو بھی شہید ہوجاتا ہے۔ “انڈرٹریننگ” یا زیر تربیت کا مطلب یہ نہیں کہ ٹرینر کو کوئی “ایمبریو” پکڑا دئے جاتے ہیں کہ ان کو بڑا کرو۔ ٹریننگ سنٹر میں وہ لوگ سیلیکٹ ہو کر جاتے ہیں جو نہ تو پرویز خٹک کی طرح مریل ہوں اور نہ ہی فضل الرحمان کی طرح ہلنے سے قاصر۔ مناسب قد و قامت کے لوگ بھرتی ہوتے ہیں۔
سوال یہ کہ انکی “quick response” کی کیا ٹریننگ ہو رہی تھی کہ اپنی حفاظت کے لئے فوری جوابی کاروائی نہیں کر سکے تو عام شہری کے لئے کیا کریں گے؟
کیا پولیس کی ٹریننگ غلیلوں سے ہو رہی تھی؟ ہتھیار کہاں تھے؟ جوابی کاروائی کیوں نہ ہوئی؟
تین سو جوانوں کو چار لوگوں نے یرغمال کیسے بنا لیا؟ کیا بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے کی سالگرہ تھی؟
جوانوں نے ہاتھ کھڑے ہی کیوں کئے “ہالٹ” کے جواب میں؟ مقابلہ کرتے، مرتے مر کیوں نہیں گیے، ویسے بھی مر ہی گیے ناں!!!!!
آخر میں یہ کہ لاکھوں سیلوٹ اُن کو جنھوں نے وہ چار دہشتگرد ٹرینڈ کئے۔ کاش اُنھی ٹرینرز کو ہمارے جوانوں کی ٹریننگ پر مقرر کر دیا جائے اور مو جودہ ٹرینر کو نواب رئیسانی کا ڈرائیور بنا دیا جائے تاکہ وہ ہر ایک کو بتاتا رہے کہ
“ٹرینر ٹرینر ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی نکما کیوں نہ ہو”-
راؤ کامران کی ڈائری سے
نوٹ!!!! مزید کالم اور تجزیے پڑھنے کے لئے اس پیج کو like کریں! شُکریہ