قومی بگاڑ

نفسیات کی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے “این ایبلنگ”(Enabling) کہتے ہیں۔ “این ایبلنگ” کے لفظی معانی ہیں “قابل کرنا” جب کہ اس کا مفہوم ہے کسی بھی روئیے یا طور طریقے کو بڑھاؤ دینا؛ یعنی کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو اسے شاباش دینا اور کوئی بُرا کام کرے تو اسکی بھی جانے انجانے حوصلہ افزائی کرکے مزید بگاڑنا۔ مثال کے طور پر ملالہ نے دہشتگردوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف ڈائری لکھنے اور آواز اٹھانے پر گولی کھائی تو پوری دنیا اسکے ساتھ کھڑی ہوگئ، اسکی “این ایبلنگ” کی، یہاں تک کہ اسے نوبل انعام مل گیا۔ گو کہ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے مرحوم “ارسطو” نئی کوڑی نکال کر اسے ڈرامہ قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ جانچناا انکی عقل اور سمجھ سے بہت اوپر کی بات ہے کہ بچی جب ہنستی یا بات کرتی ہے تو اسکا مُنہ ٹیڑھا کیوں ہو جاتا ہے۔ یہ ہے مثبت “این ایبلنگ” یا حوصلہ افزائی جو معصوم چڑیا کو بھی شاہین بنا دیتی ہے۔ منفی “این ایبلنگ” یہ ہے کہ کوئی لڑکا گلی میں مارپیٹ کرکے آئے اور اسکا باپ اسے پچاس روپے دے کر کہے” جا بیٹا، دودھ دہی کھا کر جان بنا”۔ قوی امکان ہے کہ وہ لڑکا بڑا ہوکر جرائم پیشہ بنے گا یا جیل میں جائے گا۔ یہ منفی رویے کی “این ایبلنگ” یا بڑھوتری کا انجام ہے۔ اسی طرح کسی نشئ یا جواری کی “این ایبلنگ” اسطرح کی جاتی ہے کہ جب نواب صاحب ٹُن ہوکر یا جمع پونجی جوئے میں لٹا کر گھر آئیں تو گرما گرم کھانا بیچاری بیوی پیش کرے اور کام کاج کرکے جو چند پیسے کمائے ہوں وہ جواری میاں کے ہاتھ پر رکھ دے۔ایسی “این ایبلنگ” کے بعد کسے ضرورت ہے کہ نشہ یا جوئے کو چھوڑنے کی ضرورت محسوس کرے۔

پاک سر زمین منفی “این ایبلنگ” کی جنت ہے۔ تعلیمی اداروں سے لیکر سرکاری اداروں تک میں یہ منفی “این ایبلنگ”کسی نہ کسی کن ٹُٹے کو جنم دیتی ہے جو کرپٹ عناصر کی راہ سے روڑے اٹھا کر انکا کام آسان بناتے ہیں۔ ہماری پاک فوج کے جوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے ظالموں کو جب ہم “ہمارے اپنے”، “بھٹکے ہوئے” کہتے ہیں تو وہ “این ایبل” ہوکر اگلے مرحلے میں اے پی ایس میں ہمارے ننھے بچوں پر قیامت برپا کر دیتے ہیں اور پھر جس معمولی سانپ کو “بوٹ”سے کچلا جا سکتا تھا، وہ “این ایبل” ہوکر اتنا بڑا اژدھا بن گیا کہ مرتے مرتے کتنی جانیں نگل رہا ہے۔

بستی والوں کے لئے وہ اک بلا ہو جائے گا
سانپ کو موقع ملا تو اژدھا ہو جائے گا

ایک زمانے میں جب پنجاب کے ایک “شریف”وزیراعلیٰ مجرموں کو پولیس مقابلے میں مرواتے تھے ، تو پولیس نے “این ایبل” ہوکر باقاعدہ سُپاری لیکر جعلی پولیس مقابلوں میں بے گُناہ بندے پھڑکانے شروع کر دئیے۔ یہی وہ “این ایبلنگ” تھی جس نے انسپکٹر نوید سعید اور انسپکٹر عابد باکسر جیسے گوہر نایاب کو جنم دیا۔ ایوب کو ڈیڈی، ضیا کو ابا جان اور مشرف کو عالم پناہ کہہ کر بڑے بڑے نابغہ روزگار سیاستدان بوٹوں کی “این ایبلنگ” کرتے رہے ہیں۔

“این ایبلنگ” کی حالیہ لہر یہ ہے کہ ایک بوڑھا مسلمان وزیر، پوری پارلیمنٹ کی مشترکہ غلطی کے باعث استعفیٰ دیتا ہے اور اسکی پوری زندگی کے ایمان اور کلمے قرآن کو بھی نہیں مانا جاتا تو وہ استعفیٰ دے کر مکہ مکرمہ جاتا ہے اور خانہ کعبہ کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر جاری کرتا ہے۔ ماڈرن بلاول بھٹو، پرویز اشرف کے گھر میلاد پر آتا ہے، نواز اور شہباز شریفین جو کہ اپنی تمام تر کرپشن کے باوجود پانچ وقت کے نمازی ہیں کے گھروں میں بھی میلا دیں منعقد کی جاتی ہیں۔ “این ایبلنگ” یہ ہے کہ چند ہزار لوگ (خواہ جن کی نیت بری نہ ہو) دارلحکومت کا نظام معطل کر دیتے ہیں اور شاباشی میں روپوں سے بھرے لفافے لیکر جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگلی بار صرف پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو پتھر ہی نہیں بلکہ گولیاں مارنا۔ یہ “این ایبلنگ” یا بگاڑ کسی بڑے بحران کو جنم دے گا۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ایک سمجھدار انسان بھی بات کو بڑھانے سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے اور یہاں اگر حکومت نے وزیر سے استعفیٰ لینا ہی تھا تو اتنی قیمتی جانوں کا نقصان اور حکومتی رٹ کے پرخچے اڑانے سے پہلے ہی لے لیتی۔ اکا دکا مثالوں کو چھوڑ کر بریلوی فرقہ عموماً تشدد سے بہت دور ہوتا ہے اور یہ نعتوں سے عشقِ رسول میں مگن لوگ ہوتے ہیں۔ حکومت کو مُبارک ہو کہ اپنی بےوقوفی سے انھیں بھی تشدد کے راستے پر ڈالنے کی “این ایبلنگ” کردی۔ چودہ سیاستدان جنھیں ایک عام بندے نے ووٹ دیکر منتخب کیا، اپنے استعفے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی بجائے ڈرامہ بازی کرکے ایک مذہبی شخصیت کو دے آئے جو کہ یقیناً ایک نیک بزرگ ہونگے ۔ اگر سیاسی جماعتوں میں دم ہوتا تو ہر جماعت ان چودہ پر اپنے دروازے بند کردیتے لیکن نہیں، یہاں بھی “این ایبلنگ” کی گئ۔ سیاستدانوں کی بہت سے نا اہلیوں میں سے یہ سرِ فہرست رہے گی اور دعا ہے کہ قوم اسکا خمیاذہ نہ بھگتے-

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *