پاکستان میں 2016 “لیکس” کا سال رہا۔ اس سال کے اوائل میں جنرل راحیل شریف کی مدتِ مُلازمت میں توسیع کی بازگشت سُنائی دی لیکن جنرل راحیل شریف نے قطعی طور پر اس افواہ کی نفی کی جبکہ فوج کے ترجمان نے بھی یہی بیان دیا۔ دبنگ صحافی حامد میر نے انھی دنوں اپنے کالم میں واشگاف الفاظ میں لکھا، “نواز شریف بتا کیوں نہیں دیتے کہ اُن سے تین سال کی توسیع اور فیلڈ مارشل کا عہدہ مانگا گیا ہے”۔ مزے کی بات ہے کہ اس کالم کی تردید نہ تو سرکاری طور پر سرکار کی طرف سے ہوئی اور نہ فوج کی طرف سے۔ اور نہ ہی “ٹویٹی ڈرامہ ہوا”۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی مُطالبہ ہوا تو اس کی اطلاع حامد میر کو کس نے دی؟ حکومت نے یا فوج نے؟ اور اگر مُطالبہ نہیں ہوا تو کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا؟
اس کے بعد باری آتی ہے جنرل راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کی “لیکس” کی۔ ایک عرصے تک یہ ظاہر کیا گیا کہ بھولی بھالی حکومت سے بالاتر ہوکر جنرل راحیل شریف خود ہی سعودی عرب سے معاملات طے کر رہا ہے لیکن راز کھُلا کہ نواز شریف ایک تیر میں دو شکار کرکے جنرل راحیل شریف کے “شُکریہ راحیل شریف” کے عذاب سے بھی چھٹکارا حاصل کررہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سعودی بادشاہوں کو بھی خوش کررہا ہے۔ سوال وہی ہے کہ اس خبر کی “لیکس” کا چرچا کیونکر نہ ہوا؟
اب آتی ہے مشہورِ زمانہ “ڈان لیکس”۔ جمہوری حکومت اور فوج اکھٹی ہوئی، حکومت نے اپنی ہی فوج پر پریشر ڈالا “ڈُو مور”اور فوج نے خلافِ توقع اس بار یہ پریشر لے بھی لیا۔ پاکستان کے گلی محلوں میں ہونے والے جھگڑے اکثر اس طرح حل ہوتے ہیں کہ غلطی کرنے والے فریق کا والد یا خاندان کا کوئی بزرگ رات کے اندھیرے میں اپنی پگ مُتاثرہ شخص یا اُس کے والد کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اور صلح ہو جاتی ہے۔ اب اگر جس کے قدموں میں پگ رکھی ہو وہ گھٹیا انسان ہو تو رات کے اندھیرے میں ملی یہ برتری اسے ہضم نہیں ہوتی اور صبح ہونے تک یہ “پگ لیکس” بن کر پورے محلے میں پھیلی ہوتی ہے، اس طرح کوئی “شریف” آدمی پگ کے ساتھ ساتھ عزت بھی گنوا بیٹھتا ہے اور کسی احساسِ کمتری کے مارے شخص کی انا کی قبر پر تسکین کا دیا جل جاتا ہی۔ یہی حال “ڈان لیکس” کا ہوا؛ چند ضمیر فروشوں نے سوچا کہ “چلو فوج کو نیچے لگاتے ہیں اور سرحد پار کے ساتھ ساتھ مغربی آقاؤں کو خوش کرتے ہیں”، رات کے اندھیرے میں ہوئی بات صبح “پورے محلے” میں بی جمالو صحافی “سرل المیڈا” کے ذریعے پہنچ گئ۔ فوج نے “سرل المیڈا” کے باہر جانے پر پابندی لگا دی۔ ایک مُلاقات میں ایک حساس ادارے کے اہم افسر نے اشاروں کناروں میں بتایا کہ “سرل المیڈا” نے پہلے دن ہی خبر لیک کرنے والے “سورس ” کا نام بتا دیا تھا لیکن اسے یقین دہانی کروائی گئ تھی کہ “صحافتی تقدس” کا خیال رکھا جائے گا۔ “سرل المیڈا” کا نام بھی ای سی ایل سے جب ہی نکالا گیا جب یہ “بار گین “ہوئی۔
اب فوج کے پاس پکے ثبوت تھے اس لئے فوج کا لہجہ پرائمری اسکول کے سخت ماسٹر کی طرح ہوگیا۔ حکومت نے پرویز رشید پر چھری پھیری لیکن فوج نے اسے “دوندا” قرار دے کر قربانی قبول کرنے سے انکار دیا۔ ہمیشہ کی طرح ن لیگ کی کوئی نہ کوئی خوش قسمتی کہ اس بار نیا جرنیل “ٹھنڈا” مل گیا لیکن بہرحال فوج بطور ادارہ اپنی سُبکی محسوس کر رہی تھی۔ نتیجتاً طارق فاطمی اور راؤ تحسین لٹکائے گئے لیکن فوج نے سخت ٹویٹ کی کہ “یہ تحقیقات قبول نہیں ہیں”۔ اور جنرل قمر کی وزیراعظم سے مُلاقات کے بعد یہ ٹویٹ واپس لے لی گئ۔
“نانی نے خصم کیا بُرا کیا’ کر کے چھوڑ دیا مزید بُرا کیا”-
اگر فوج بطور ادارہ حکومت کے ماتح ہے تو اسے تحقیقات کو تسلیم کرنا چاہیے تھا اور اگر تسلیم نہیں کرنا تھا تو فون یا خط کے ذریعے احتجاج کرتے۔ “ٹویٹ” پر “سخت” جواب دینا ایسا ہی ہے جیسے دو لڑاکا اور ان پڑھ ہمسائیاں دروازے پر کھڑے ہوکر جھگڑا کریں اور دیگر اہلِ محلہ کے ساتھ ساتھ راہگیر بھی لطف اندوز ہوں۔اور دنیا کو تماشا دِکھا کر وہ صُلح کر لیں۔ پاکستانی عوام کے پاس زرداری فیملی کی کرپشن اور شریف فیملی کی لوٹ مار کے بعد لے دے کر فوج بچی ہے جس پر آسرا ہے، جس پر اعتماد ہے کہ وہ ان کرپٹ خاندانوں کے ہاتھوں پاکستان کا سودا نہیں ہونے دے گی۔ تو جب ایسے بے سروپا “ٹویٹ کھڑاک” کئے جائیں گے اور کرکے واپس لئے جائیں گے تو دل شکنی کے ساتھ ساتھ عجیب سی وسوسے ذہنوں میں آئیں گے۔ مُشرف دور میں بھی فوج کا اتنا مذاق نہیں اُڑایا گیا جتنا “ٹویٹ کی واپسی” کے بعد سوشل میڈیا پر اُڑا۔ فوج سے درخواست ہے کہ اس اعتماد کو بحال رہنے دیں ورنہ کرپشن، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری سے آدھ مری عوام جو اب بھی ڈٹی ہوئی ہے، “ہتھیار ڈال” دے گی۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ