نادان کی محبت، ایک دُشمنی

اسلام آباد کے شمال مغرب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا نام ترنول ہے۔ ترنول کی زیادہ تر آبادی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ مردوں کا پیشہ پتھر کُوٹنا اور عورتیں اسلام آباد کے بوتیکس کے لئے سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ جوان لڑکیاں سکول میں پڑھاتی ہیں تاکہ بڑھتی مہنگائی میں اپنے غریب ماں باپ کا سہارا بن سکیں، بہن بھائیوں کو پڑھا سکیں اور اگر ہوسکے تو اپنا جہیز جوڑ لیں۔

آج سے چند روز پہلے، سولہ جنوری کو ترنول کے المدینہ پبلک اسکول میں ایک بارہ سالہ لڑکے اسامہ نے گھر سے اپنے والد کا پستول لاکر، اسکول میں خودکشی کرلی۔ گولی مارنے سے پہلے اُس نے اپنے بھائی کو ایک خط دیا جس میں لکھاتھا کہ وہ اسکول کی ایک ٹیچر سے محبت کرتا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے؛ چونکہ ٹیچر نے اسکو مثبت جواب نہیں دیا اس لئے وہ دلبرداشتہ ہوکر اپنی جان لے رہا ہے۔ مزید برآں اس میں اسکے والد کا کوئی قصور نہیں اور یہ کہ وہ اُنکا پستول چوری کرکے لایا ہے۔

اس افسوسناک واقعہ پر دُکھ اور اُس سے زیادہ سب کو حیرت ہے کیونکہ بارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں جب زیادہ تر بچے بلوغت کی حدوں کو بھی نہیں چھوتے ہیں، محبت میں اتنی شدت پسندی سمجھ سے باہر ہے۔ اس پر محبت میں ناکامی میں خودکشی کے ارادے سے لیکر پستول کی چوری تک، ایک عام بچے کا کام نہیں؛ یقیناً اس بات کی ضرورت ہے کہ دیکھا جائے کن لڑکوں میں اسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا اور کیا گھر والوں نے بچے پر مناسب توجہ دی تھی یا نہیں۔ اس کیس کو بنیاد بنا کر مزید بچوں کو ایسے انتہائی اقدام سے روکا جا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں “محبت” انڈین فلموں یا پاکستانی ڈراموں سے سیکھی جاتی ہےاور معاشرے میں چونکہ ہر چیز خستہ حالت میں ہے اسلئے محبت بھی “دو نمبر” بن کر رہ گئ ہے۔ محبت کا لازمی جزو “کیئرکرنا”ہے یعنی جس سے محبت کی جائے اسکی پرواہ کی جائے، اسکے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔ اسامہ نے خط میں باپ کی بےگناہی اور اسے کچھ نہ کہنے کی درخواست کی ہے جو کہ صحیح معنوں میں باپ کی پرواہ اور آخری وقت میں بھی اسے محفوظ رکھنا ہے یعنی اسامہ کو خود نہیں پتا کہ اسے سچی اور فطری محبت تو باپ سے تھی استانی سے نہیں کیونکہ اپنے جذبات کی شدت میں محبت کے نام پر مرتے مرتے وہ اس لڑکی کو بدنام اور رسوا کرگیا اور اسکی ذرا پرواہ نہیں کی جو کہ حتمی طور پر محبت کی نفی ہے۔

ایک غریب کی بچی اپنے گھر کیلئے عزت کی روٹی کمانے اسکول آئی اور عزت بھی گئ شائد روزی روٹی بھی کیونکہ اب بیچاری کیا نوکری کر پائے گی۔ استانی کو شاملِ تفتیش کرلیا گیا ہے یعنی کہ اب کوئی بیہودہ سا تھانیدار سوال کرے گا،

“تم کاجل لگا کر اسکول کیوں آتی ہو؟”
“کیا تم سینے پر دوپٹہ رکھتی تھی؟”
“کیا مُسکرا کر اس لڑکے کو دیکھتی تھی؟”
“کبھی اسکو کوئی گرین سگنل دیا؟”
اور بہت سے قابل اعتراض سوال پوچھے جائیں گے۔

محلے کی “فارغ” خواتین نتیجہ اخذ کریں گی کہ “لڑکے کو کچھ تو استانی نے بھی رجھایا ہوگا، ایسے ہی تو کوئی دیوانہ ہوکرجان نہیں دیتا!!” لڑکی کی شادی میں مُشکل ہو گی اور اگر شادی ہوگئ تو ساس کو روٹی دیر سے ملی یا میاں کی شرٹ صحیح طریقے سے استری نہ ہوئی تو جھڑکیوں سے شروع ہونے والی بات اسامہ کے طعنے پر ختم ہوگی۔

“فوادخان” بننے کے شوقین لونڈوں کو اندازہ نہیں کہ کتنی نازک اور قیمتی ہوتی ہے عزت!!!
کوئی ان کو سمجھائے کہ اگر “مبینہ محبت” کے جزبات کی قدر، خوشی کا خیال اور عزت نہیں کر سکتے تو جان لیں کہ یہ محبت نہیں ہے بلکہ دُشمنی ہے۔ اگر سچی محبت ہے اور دم ہے تو خود کو کسی قابل بنائیں اور پھر محبت کو حاصل کرنے کی بات کریں ورنہ بفرض محال انکی بیوقوفانہ خواہش کے مطابق چھوٹی عمر میں شادی ہو بھی گئ تو پچاس روپے ابا جان سے مانگ کر “محبت” کو بس مرونڈا ہی کھِلانے کی حیثیت رہےگی اور ایک مرد کے لئے یہ گولی کے بغیر ہی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔
Tez Hay Nok e Qalam
کو like کریں تاکہ مزید کالم پڑھ سکیں، شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *