جنابِ صدرِ امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ کی شان میں کچھ کہنا، “ہٹلر کو ظلم دکھلانے” کے مترادف ہے۔ موصوف کے وحشیانہ خیالات کا اندازہ “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے مصداق، الیکشن سے پہلے ہی ہو چُکا تھا اور” وحشیوں” نے ہی اسے چُنا۔ انڈیا میں ہزاروں لوگوں کو درندگی سے موت کی گھاٹ اُتروانے والے مودی کی بے مثال کامیابی کے بعد ٹرمپ کی شاندار جیت اس بات کی غماز ہے کہ دُنیا میں وحشیوں اور جاہلوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ “شریف مگر سست” سربراہانِ مملکت کی سستی اور کاہلی بھی ہے۔ انڈیا کے ہزاروں کسان اجتماعی خودکشیاں کر رہے تھے اور دہلی میں محض میٹنگ پر میٹنگ ہو رہی تھی۔ اسی طرح امریکہ میں لوگ “نوکری نوکری” کر رہے تھے جبکہ بُش اور اوبامہ “دہشتگردی دہشتگردی” کھیل رہے تھے۔ ایسے میں دونوں ممالک میں متاثرہ لوگ خود غرضی میں “وحشی” ہو گئے اور ایسے سربراہانِ مملکت کو چُنا جن سے انکی “مرادیں” بر آئیں خواہ انسانیت یا پوری دُنیا ہی بھسم ہو جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی ہفتے سات اسلامی ممالک کے باشندوں پر امریکہ آنے پر پابندی لگا دی ہے۔ ان میں عراق، ایران، شام، یمن، سوڈان ، لیبیا اور صومالیہ شامل ہیں۔ ایسے گھٹیا قدم کے برعکس، امریکہ جیسے مُلک میں ہی ایک بڑی تعداد ایسے درد مندوں گوروں، بھُوروں اور کالوں کی بھی ہے جو سردی میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیکر باہر نکل آئے ہیں تاکہ ان ساتوں ممالک کے باشندوں کا دفاع کر سکیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان سات اسلامی ممالک میں سے کسی سے بھی گورے امریکیوں کو نکالا جائے اور کوئی مسلمان ایسے سڑکوں پر آئے؟؟؟ ابھی پاکستان، عرب امارات حتّی کہ سعودی عرب پر بھی پریشر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ “ریڈیکل اسلام” سے مقابلے کی آڑ میں نا صرف “ناپسندیدہ” ممالک سے جان چھُڑا لی گئ بلکہ دیگر ممالک پر دباؤ پیدا کر دیا ہے کہ، “امریکی صدر جو کہتا ہے وہ کرتا ہے”۔
ان سات ممالک سے دلی ہمدردی اپنی جگہ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ یہ ممالک ٹرمپ سے زیادہ خود اپنے دُشمن ہیں۔ آٹھ سالہ جاری رہنے والی عراق اور ایران جنگ میں گیارہ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور سوا ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا، ظاہر ہے یہ جنگ ٹرمپ کے کہنے پر نہیں ہوئی، مسلمان حکمرانوں کے جسموں میں شاید “ٹرمپ کی روح” آگئ ہوگی- “اودےصدام حسین” نے عیاشی کے لئے اپنی قوم کی اتنی لڑکیاں گھروں سے نکالیں جتنی ٹرمپ امریکہ سے نہیں نکال رہا۔ کچھ ایسا ہی حال دیگر پانچ ممالک کا ہے جہاں ایک مسلمان فرقہ دوسرے کا جتنا دشمن ہے، اتنا تو ٹرمپ بھی نہیں۔ مزید برآں ان ساتوں ممالک کی عوام اگر امریکہ سے اتنی نفرت کرتی ہے تو نکالے جانے پر ہنگامہ کیوں؟؟؟ کیا پاکستان میں ہم اور آپ “روس کے بعد امریکہ توڑنے” کے دعوے یا “شیطان بزرگ امریکہ” پورے مُلک کی دیواروں پر پڑھتے بڑے نہیں ہوئے؟ جس ملک سے نفرت اور دُشمنی اس کی سہولتوں اور پیسے سے محبت؟؟؟سُبحان الَلہ!!!
طنز اور اپنی غلطیوں کا جائزہ ایک طرف، اس وقت پوری دنیا کے مسلمان ایک مٹھی بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔ سب امریکی مسلمان اس وقت ایک ہیں۔ پاکستانی امریکی مسلمانوں کی تنظیمیں اپنا اثرورسوخ استعمال کر رہی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تنظیم “اپنا”، ڈاکٹر ساجد چوہدری اور ڈاکٹر رشید پراچہ کی سربراہی میں اور “پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی” رفعت چُغتائی کی سربراہی میں امریکی سیاسی نظام میں اپنے تعلقات کی بنا پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راقم ان دونوں تحریکوں کا ادنیٰ سا کارکن ہے اسلئے سب کی شب و روز کاوشوں اور بے چینی سے بخوبی واقف ہے۔
الّلہ نے اپنی رسّی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا اور ہم نے اس رسّی میں سے شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی، وہابی کے دھاگے نکال کر رسی کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور اکیلے دھاگے تو کسی بھی فرقے کو محض پتنگ کی طرح اُڑا سکتے ہیں وہ بھی معمولی سی ہوا کی غلام بنا کر۔ ان دھاگوں کو دوبارہ جوڑ کر رسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ٹرمپ کے لائے طوفان کا مقابلہ کر سکیں ورنہ
“ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ