کلثوم نواز بھاری لیڈ سے جیت جائیں گی!!!!
امریکہ میں امیر اور پڑھے لکھے پاکستانیوں کی ایک تنظیم ہے جس میں کم سے کم تنخواہ کا حامل بھی دو لاکھ ڈالر کماتا ہے۔ ہر سال اسکے الیکشنز ہوتے ہیں اور الیکشنز میں پچاس سے ستّر فیصد چانسسز ہیں کہ چند “نمبردار” یہ سوچ کر ووٹ ڈال یا ڈلوا رہے ہیں کہ اس سپورٹ میں “میرا” ذاتی فائدہ کیا ہے؟ اور عام ممبرز سادگی میں سچے دل سے کمیونٹی کے عظیم تر مفاد میں اسپورٹ کررہے ہوتے ہیں۔ اب یہ “ذاتی فائدے” کیا ہیں ؟ جی یہ “عظیم” فائدے ہیں، معمولی سی اہمیت، “بلّے بلّے”، تھوڑا سا عہدہ جس کے اختیارات شائد کچھ بھی ناں ہوں، اسٹیج پر ایک جھلک، گلوکار یا اداکار کی ساتھ کوئی ایک تصویر، حسین گلوکارہ یا اداکارہ کے ساتھ بہت سی “تصویریں”، جُگاڑ لگ جائے تو چار پانچ سو ڈالر کی مُفت کی ٹیبل، یا ایک ڈیڑھ ہزار کا مُفت کا ہوائی سفر شامل ہے۔ ” صدارتی امیدوار” کے کسی دوست کا عام ووٹر کو فون آتا ہے جس میں وہ امریکہ میں پاکستانی قوم کی زبوں حالی پر گریہ کناں نظر آتا ہے کہ امریکی پاکستانیوں کو یہی “صدارتی امیدوار” ظُلمت کی اتھاہ و عمیق گہرائیوں سے نکال سکتا ہے اور اس صدارتی امیدوار کی جیت کے بعد اس دوست کو “کاروبارِ سلطنت” سنبھالے یا ہر معاملے میں اپنی دُوکان چمکائے دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ “قوم” سے مُراد وہ “بذاتِ خود” ہیں اور ماشااللّہ صاف لگ رہا ہے کہ گمنامی کے گہرے اندھیروں سے “قوم” یعنی وہ باہر نکل آئے ہیں ۔
ذرا ملاحظہ فرمائیں، یہ حال ہے ہم جیسے لوگوں کا جو مالی طور پر خوشحال ہیں، امریکہ جیسے مُلک میں نا بھوک دیکھی نہ مجبوری؛ نہ تھانے کا ڈر نہ کچہری کی فکر؛ نہ زبردستی رشوت لئے جانے کا معاملہ نہ کرپشن؛ نہ پلاٹ پر قبضے کا ڈر نہ بھتے کا خوف، اور ان سب آسائشوں کے باوجود چھوٹے چھوٹے فائدے کے لئے ،محض معمولی سی اہمیت حاصل کرنے کے لئے غلط فیصلے کرتے ہیں۔ انا کی تسکین کے لئے نہ میرٹ دیکھتے ہیں نہ حقیقت؛ نا اپنے ضمیر کی سُنتے ہیں نہ عقل کی۔ جس مُلک میں ہمیں مسلمان ہوکر برابر حقوق ملتے ہیں، پنجابی اور سندھی کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ اچھے خاصے سمجھدار لوگ فرماتے ہیں، “ہمیں پتا ہے کہ مخالف امیدوار زیادہ اہل اور ایماندار ہے لیکن ووٹ ہم “اپنے” بندے کو ہی دیں گے”!!!!! اب آتے ہیں پاک سر زمین کی طرف!!!!!!!
لاہور کا حلقہ NA 120, بلال گنج سے لیاقت بازار اور ہال روڈ سے داتا صاحب موہنی روڈ تک پھیلا ہے۔ امریکہ آنے سے قبل کے الیکشن کے دوران میں اندرون لاہور میں ایک کلینک پر کام کرتا تھا اور پیراسیٹامول کو پیڑاسیٹامول (ڑ) کہنے والے سادے سے میٹھے سے “اوریجنل” لاہوریوں کا علاج کرتا تھا۔ اس پورے علاقے میں شیڑ (شیر) کو ووٹ دینے کے نعرے گونجتے تھے۔ رنگ محل کی (ٹیکس بچانے کے لئے بنائی گئ ) تاجروں کی ڈسپنسری پر معائنہ فیس دو روپے تھی اور “شیڑ” کے اکثر عاشقوں اور ووٹروں کے پاس یہ دو روپے بھی نہیں ہوتے تھے۔ پھر ان سادہ سے لوگوں کے بچے بڑے ہوئے، سوشل میڈیا اور ٹی وی پر عمران خان کی مقبولیت کے باعث “شیڑ” کے ساتھ ساتھ بلّا بھی دھوم مچانے لگا۔ عمران خان کے مینارِ پاکستان کے جلسے کے بعد ن لیگ کو ہوش آیا اور عملی طور ہر (لفظی نہیں)، ہر گھر کے کسی نہ کسی فرد کو نوکری دی گئ یا کوئی ٹھیکا یا ویزہ دیا گیا۔ یہ ان وضع دار لوگوں پر ناصرف احسان تھا بلکہ ایک پوشیدہ دھمکی بھی تھی کہ اگر مجھے ووٹ نہ دیا گیا تو یہ سب کچھ واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔ انسانوں پر ایسے حربے استعمال کیے جاتے جیسے سرکس میں سدھانے کے لئے جانوروں پر کیے جاتے ہیں ۔ بات بے بات افسر بےعزتی کرکے نکلا دیتا اور پھر سیاسی “ڈیرے” سے فون جاتا کہ اپنا ہی آدمی ہے، رکھ لو؛ آپ حلقے کے کسی بھی ووٹر سے بات کرلیں، یہی جواب ملے گا کہ نواز شریف ووٹ کا اہل نہیں لیکن چونکہ اس سے ہمارا ذاتی فائدہ ہے اس لئے ووٹ اس کو ہی دیں گے۔ اور کچھ لوگ دھمکیوں، انتقام کے ڈر سے ووٹ دیتے ہیں۔
کیا فرق رہ گیا امریکہ میں رہنے والے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر میرٹ کی پرواہ نہ کرنے والے “نمبر داروں” میں اور ان کم پڑھے لکھے مجبور یا ضرورت کی خاطر ووٹ بیچنے والے لوگوں میں ؟ ہم ویک اینڈ کی پارٹیوں میں لگژری محلوں میں بیٹھے باتیں کرتے ہیں کہ پنجابی مزدور کو جاگیرداروں، سندھی ہاری کو وڈیروں اور پسے ہوئے بلوچی کو سرداروں کے سامنے سینہ سپر ہو جانا چاہئے اور خود ایک سچائی اور حق پر مبنی بات تک نہیں کرسکتے مبادا کوئی “ان داتا” ناراض نہ ہو جائے؛ کمیٹی کی “جاگیرداری” یا میٹنگ کی “سرداری” نہ چھن جائے۔ اگر کوئی نمایاں شخص زبان کھولے تو اسے گولی دی جاتی ہے کہ کل کو اس نے بھی الیکشن لڑنا ہے اس لئے مُنہ بند رکھے۔ لو کرلو گل!!!!
دنیا کا کوئی بھی عہدہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا؛ کوئی پانچ سال کا، کہیں چار سال کا تو کوئی ایک سال کا۔ دیکھنے والوں کو نہ تو عہدے دار یاد رہتے ہیں اور ناں انکے فصلی بٹیرے یا خوشامدی نمبردار؛ یاد رہتے ہیں تو وہ جو کسی خوف اور لالچ کے بغیر میرٹ کی خاطر مضبوط قدموں کے ساتھ بہترین امیدوار کے ساتھ کمزور لمحوں میں بھی کھڑے رہے اور انکے قدموں نے مٹی نہیں چھوڑی۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ جو انسان کھرے یا کھوٹے کی پرواہ نہیں کرتا، خلوص اور خوشامد میں فرق نہیں جانتا، وقت اسے ایسے رسوا کردیتا ہے کہ کوئی اس سے کلام تک کرنا پسند نہیں کرتا۔ نام نہاد اقتدار کے بعد وہ تین میں ہوتا ہے ناں تیرہ میں۔ فصلی بٹیرے نئ فصل کا دانا چُگنے کے لئے اُڑ جاتے ہیں اور “عارضی بادشاہ ” اس وقت کو ترستے ہیں کہ وہ موقع دوبارہ ہاتھ آ جائے اور وہ کچھ بہتر کرسکیں۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ کر دکھانے کا موقع بار بار نہیں ۔ کلثوم نواز جیت جائے گی کیونکہ ذاتی مفاد کی انگلی بچانے کے لئے قوم یا گروہ کا گلا کٹوانا ہمارا شعار بن چکا ہے، خواہ ہم تعلیم یافتہ ہوں یا جاہل!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ