“پتا نہیں انھیں نیند کیسے آجاتی ہے”

حاجی رحمت علی کی آنکھ سالوں کے معمول کی طرح فجر کی اذان کے ساتھ ہی کُھلی اور وہ مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔ سالہا سال سے حاجی صاحب کی تکبیرِاولیٰ نہیں چھُوٹی تھی۔ نماز کی نیت باندھنے سے پہلے حاجی صاحب نے گردن گھُما کر دیکھا تو دین محمد مسجد کے ٹوائلٹ میں داخل ہو رہا تھا، یعنی اسکی تکبیرِ اولیٰ پھر چھُوٹ گئ۔ حاجی صاحب نے دل ہی دل میں سوچا کہ پتا نہیں دین محمد کو تکبیرِ اولیٰ میں شامل ہوئے بغیر نیند کیسے آجاتی ہے ؟

دین محمد جوڑوں کے درد کی وجہ سے آہستہ آہستہ مسجد آتا تھا اور بمشکل جماعت پکڑتا تھا۔ وہ گھر پہنچا تو اُسکا جوان بیٹا اشرف سو رہا تھا۔ غصے سے اسکی طرف دیکھتا ہوا اپنی بیوی سے بولا پتا نہیں نماز پڑھے بنا اس کمبخت کو نیند کیسے آجاتی ہے؟

اشرف رات کو دیر سے سویا تھا کیونکہ وہ چھیمو سے ٹیوب ویل پر ملاقات کرکے آرہا تھا۔ چھیمو ذرا شرمیلی تھی اور ہر وقت “پہلےشادی” کی رٹ لگائے رکھتی تھی اس لئے “ڈیٹ” بد مزہ گئ تھی۔ اس نے محلے کے “لَو گُرو” محبوب عالم سے مشورہ کرنےکی ٹھانی۔ محبوب عالم شراب کے نشے میں دھت اپنے گھر کے سامنے تھڑے پر پڑا تھا۔ اشرف نے سوچا، محبوب عالم پکا نشئ ہے، نہ کام کا نہ کاج کا۔ پتا نہیں شراب پینے کا گُناہ کرنے کے بعد اسے نیند کیسے آجاتی ہے؟

محبوب عالم، بہن کا جہیز بنوانے “خان سنیارے” کے پاس گیا۔ زیور ادھار پر بنوایا اور سُنیارے نے پچیس فیصد سُود پر زیور دیا۔ محبوب نے پاکٹ سائز شراب کی بوتل سے چُسکی لگاتے ہوئے سوچا کہ “سوُد لینا الّلہ اور اُسکے رسول سے جنگ ہے”۔ پتا نہیں سوُد لینے کا گُناہ کرنے کے بعد خان سنیارے کو نیند کیسے آجاتی ہے؟

خان سنیارے نے کاکے پہلوان کو سُود پر زیور بنا کر دیا تھا اور کاکا سُود تو کیا اصل زر بھی واپس نہیں کررہا تھا اور خان سنیارے کے کن ٹُٹے، کاکے سے ڈرتے تھے۔ ایک دن سنیارے نے کاکے پہلوان سے التجا کی کہ “قرض تو شہید کو بھی معاف نہیں”۔ پتا نہیں قرض نہ لوٹانے والوں کو نیند کیسے آجاتی ہے؟

یہ سُن کر کاکے پہلوان نے خان سنیارے کے منہ پر گھونسہ رسید کردیا۔ سنیارے کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ پولیس کاکے کو پکڑ کر لے گئ۔ ایس ایچ او نے پرچہ خارج کرنے کے ایک لاکھ مانگ لئے۔ کاکا بڑا اکڑا لیکن بڈی توڑنے کی سزا سُن کر اکڑ بھی ٹوٹ گئ اور ستر ہزار میں “سودا” طے ہوگیا۔ ایس ایچ او کو نوٹوں کی گڈی تھماتے ہوئے کاکے پہلوان نے رشوت لینے والے کو جہنمی ہونے کی یاد دہانی کروائی تو ایس ایچ او نے بے نیازی سے کہا کہ رشوت دینے والا بھی جہنمی ہے، ہم “دونوں بھائی” جہنم میں ساتھ ہی ہوں گے۔ کاکا خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور سوچا پتا نہیں رشوت لینے کا گُناہ کرنے کے بعد ایس ایچ او کو نیند کیسے آجاتی ہے؟

ایس ایچ او نے ستر ہزار میں سے پینتیس ہزار ایس پی کو بھیجے اور ایس پی نے پینتیس میں سے پندرہ ہزار، آئی جی کو بھیج دئیے۔ آئی جی نے ایسے “ہزاروں” “پندرہ ہزار” میں سے “ٹین پرسینٹ” الگ کئے، ڈالروں میں تبدیل کروا کر سوٹ کیس میں ڈالے اور مسٹر ٹین پرسینٹ کے پاس لے گیا۔ مسٹر ٹین پرسینٹ ، سُپر ماڈل “بے ایمان” کے پاس بیٹھ کر اُسے ڈالر اسمگل کرنے کے طریقے بتا رہا تھا۔ آئی جی نے سوٹ کیس “مسٹر ٹین پرسینٹ”حوالے کرکے پوچھا، باس، “پورا پاکستان آپ پر لعنت ملامت کرتا ہے۔ بیرون ملک جائیں تو اس ملک کے اخبارات اپنے صدر کو آپ سے ہاتھ ملاتے وقت اپنی گھڑی چوری ہونے سے بچانے کی تاکید کرتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی برائیوں اور بےعزتی کے بعد آپکو نیند کیسے آجاتی ہے”؟
مسٹر ٹین پرسینٹ نے سُپر ماڈل “بےایمان” کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے آئی جی سے مُخاطب ہوکر کہا “بابا جی”، آج رات یہیں رُکو، آپ کو دکھاتے ہیں کہ کیسے نیند آتی ہے! یہ کہہ کر مسٹر ٹین پرسینٹ اور “بےایمان” نے بےشرمی سے زوردار قہقہے لگانے شروع کر دئیے۔

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *