عطا الحق قاسمی صاحب سے میرا دیرینہ تعلق ایک دہائی سے زائد عرصے پرمحیط ہے۔ نثر نگاری پر قاسمی صاحب کا احسان یہ ہے کہ جیسے مظہر کلیم ایم اے نے عمران سیریز کو اتنا مزیدار بنا دیا اور عمران اور پاکیشیا سیکرٹ سروس کا کردار اتنا مضبوط بنا دیا کہ ماں باپ نے بچوں کے پڑھنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا، قاسمی صاحب نے ہم جیسے بچوں کو کالم پڑھنے پر لگا دیا تھا۔ اتنی آسان زبان میں سماجی اور معاشرتی کالم لکھے کہ انکے کردار صبح سے شام تک ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں اور کالم پڑھتے ایسا لگتا تھا جیسے تھری ڈی گلاسز لگا کر قاسمی صاحب ہمیں اپنے ہی محلے کی سیر کروا رہے ہوں۔ راقم نے جب کالم نگاری شروع کی تو ڈرتے ڈرتے قاسمی صاحب سے عرض کیا کہ آپ کا میاں نواز شریف سے عشق دنیا جانتی ہے لیکن بطورِ حکمران انھیں “تیز ہے نوکِ قلم” کا نشانہ بننا پڑے گا تو قاسمی صاحب نے فرمایا یقیناً مثبت تنقید کالم نگار کا حق ہے لیکن الفاظ کا چناؤ ایسا ہو کہ کسی کا دل نہ دکھے اور ذاتی زندگی پر حملہ نہ کیا جائے۔ کالم نگاری چونکہ انکے کالم پڑھ کر سیکھی اسلئے انھیں روحانی استاد کہہ سکتا ہوں۔
عطاءالحق قاسمی صاحب پر تین الزامات شدت سے لگتے ہیں؛ (۱) وہ میاں صاحبان بالخصوص میاں نواز شریف کی بے جا حمایت، تعریف اور کسی حد تک خوشامد کرتے ہیں (۲) انکی تعریفوں کے باعث وہ تھائی لینڈ اور ناروے کے سفیر بنے (۳) وہ گورنر پنجاب کے امیدوار تھے لیکن پی ٹی وی کے چیرمین بنے او پھر استعفیٰ دے دیا۔
عطاءالحق قاسمی صاحب میاں صاحبانِ کے اس وقت کے دوست ہیں جب دنیا قاسمی صاحب کو جانتی تھی اور میاں صاحبان ابھی سیاسی میدان میں قدم رکھ رہے تھے اور یہ تعلق کبھی نہیں ٹوٹا۔ اگر دوستی آزمانی ہو تو مشکل وقت میں پتا چلتا ہے۔ آپ ۱۹۹۹ سے لیکر ۲۰۰۷ تک کے اخبارات کا مطالعہ کریں اور آپ کو لگ پتا جائے گا کہ یاروں کا یار کسے کہتے ہیں اور صحافت میں دلیری اور جواںمردی کسے کہتے ہیں! کون تھا جو مشرف کے آگے ڈٹ گیا اور جلا وطنی میں بھی میاں صاحبان کا نام کالموں میں زندہ رکھا۔ یہ آٹھ سال تاریخ کا حصہ ہیں کہ یار نے یاری نبھاتے جان کی پرواہ تک نہ کی۔میں کوئی میاں صاحبان کا فین نہیں لیکن یہ فرق بتانا ضروری ہے کہ خوشامدی، فائدے اٹھانے اور دوستی نبھانے میں فرق کیا ہے۔
اب آتے ہیں سفارت کاری کی طرف۔ امریکہ میں ایک پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ہمارا امریکہ میں پاکستانی سفیروں سے رابطہ رہتا ہے۔ سفارت کاری ایک تو سیاسی اہمیت کی حامل ہوتی ہےجیسے انڈیا یا امریکہ سے ، یا تجارتی جیسے چین یا ترکی سے ; یہاں بےحد تجربہ کار اور منجھے ہوئے سفارتکاربھیجے جاتے ہیں اور پھر آتی ہے سماجی اہمیت کی حامل سفاتکاری یعنی ایسے ممالک میں سفیر بھیجے جائیں جن سے کوئی گہرا سیاسی یا تجارتی تعلق نہ ہو لیکن وہاں آپکے ملک کے باشندے بستے ہوں۔ ایسے ممالک میں سفیر ہمیشہ سکالرز، یونیورسٹی کے پروفیسرز یا اہم سماجی شخصیات ہوتے ہیں اور یہ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔ ایسا ہی قاسمی صاحب کے سلسلے میں ہوا۔ اگر انھیں چند سال کی سفارت کا ہی لالچ تھا تو مشرف تو اپنے ہی ملک پر قبضے پر انکے قلم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے انھیں کسی بھی ملک کا سفیر بنانے کو تیار تھا۔ چوہدری برادران گوہر شناس لوگ ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ قاسمی صاحب کی قدر میاں صاحبان سے زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن قاسمی صاحب نے ان سے نواز شریف کی خاطر دوری رکھی اور یہ بات انکے کردار کی عظمت کی گواہی کے لیے کافی ہے کہ وہ خوشامدی یا مطلب پرست نہیں۔
اب آجاتی ہے پنجاب کی گورنری؛ جب قاسمی صاحب الحمرا کے سربراہ تھے تو میں نے ن لیگ کے کارکنوں کو وہاں روتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مشرف دور سے بھی زیادہ اب دُکھی ہیں کیونکہ ماریں ہم نے کھائیں، فائدے مشرف کے ساتھی اور پارٹی کے غدار اٹھائیں اور ہمیں پوچھتا کوئی نہیں۔ قاسمی صاحب چوہدری سرور کی گورنری کے خلاف تھے اور کسی بھی پرانے ن لیگی کارکن کو گورنر دیکھنے کے خواہشمند تھے تاہم ایک باقاعدہ سازش کے تحت افواہ اڑائی گئ کہ وہ خود گورنر بننا چاہتے ہیں۔ افواہ اڑانے والوں میں اجمل نیازی، عبدالقادر حسن سرفہرست تھے اور بھولے بادشاہ،انتظار حسین (مرحوم) نے بھی قاسمی صاحب کو “سمجھانے” کے لئے کالم لکھ دیا۔ چوہدری سرور نے جو ن لیگ کے ساتھ کیا، اس سے قاسمی صاحب کی مردم شناسی ثابت ہوتی ہے اور رفیق رجوانہ سے پوچھیں گے کہ ان کے جیسے کارکن کے گورنر بننے میں کس کی تحریروں کا ہاتھ ہے تو وہ قاسمی صاحب کا ذکر کریں گے۔
لوگ پی ٹی وی کی چند لاکھ کی نوکری کا ذکر کرتے ہیں تو عرض ہے کہ “کھانے والے” ایسے نہیں کھاتے ہیں۔ اندر ہی اندر اربوں کے پر مٹ اور ٹھیکے ملتے ہیں اور باہر سفید پوش بنے پھرتے ہیں۔ جو انسان پی ٹی وی کا عروج دیکھ چکا ہو اور اسکے لیے بہترین ڈرامے لکھ چکا ہو وہ اسکی بہتری کے لیے “اسٹیٹس کو”سے ٹکرا گیا اور نتیجہ آپکے سامنے ہے۔ چُپ چاپ “کھاتا” اور “کھلاتا” تو مریم اورنگزیب جیسی خاتون کا کیا کردار ہے کہ چئرمین کے اختیارات کم کرکے من چاہے ایم ڈی کو لاکر من مانی کرتی۔ لوگ کہتے ہی کہ ایماندار لوگ آگے نہیں آتے ادارے نہیں بچاتے اور جب وہ آگے آئیں تو پھر لوگ یا تو حسد کا شکار ہو کر اقربا پروری کی بین بجانے لگ جاتے ہیں یا پھر ان کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔سابق دبنگ ائر چیف راؤ قمر سلیمان، چند مہینے پی آئی اے میں نہ نکال سکے کیونکہ وہ ایماندار تھے اور “اسٹیٹس کو” سے ٹکڑا گئے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحبان کی بے جا تعریفوں اور ہمیشہ کی طرفداری کی وجہ سے عطاءالحق قاسمی صاحب اپنی غیر جانبدارانہ شناخت کھو چکے ہیں۔ شاید یہ بات قاسمی صاحب کو بری لگے لیکن یہ نقصان دہ بات ہے۔ نواز شریف مخالف تو ظاہر ہے دانت کچکچاتے ہی ہیں کہ یہ بندہ اپنے قارئین اور چاہنے والوں کو نواز شریف کی طرف کھینچتا ہے لیکن اب ن لیگ کی “محلاتی” سازشیں بھی قاسمی صاحب کو گھیرے میں لے رہی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ہمیشہ ہوتا ہے کیونکہ ایک فنکار، سیاستدان نہیں ہوتا، اسے فائدے نقصان کا زیادہ پتا نہیں ہوتا۔ وہ مشرف اور چوہدری برادران جیسوں تک سے ٹکرا جاتا ہے، اور آخر میں حاکم کے ساتھ جو “کولیٹرل ڈیمیج” ہوتا ہے، ان میں اسکا پہلا نمبر ہوتا ہے۔ قاسمی صاحب میں چاہوں بھی تو آپکے دوستوں کے حق میں کچھ نہیں لکھ سکتا لیکن آپکے لیے تو ہمیشہ دعائیں ہیں اور رہیں گی۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ