ہوزے کا تعلق میکسیکو سےہے اور وہ رزق کی تلاش میں امریکہ آیا ہے۔ اس کا کام بہت سخت ہے۔ سردیوں میں برفباری کے دوران لوگوں کے گھروں کے آگے جمی ہوئی برف صاف کرتا ہے تاکہ ہم جیسے تن آسان لوگ اپنے کام پر وقت پر پہنچ سکیں جبکہ گرمیوں میں انھی گھروں کے لان کی گھاس کاٹتا ہے اور پودوں کی تراش خراش کرتا ہے۔ ایک دن کام کے دوران ہوزے کی دائیں ٹانگ پر زخم آگیا جو بعد میں بھر تو گیا لیکن ایک عصب (nerve) اس بُری طرح زخمی ہوئی کہ نرو کا ناسور بن گیا جسے ڈاکٹری زبان میںComplex Regional Pain Syndrome (CRPS) کہتے ہیں۔ اس بیماری میں اگر کوئی ٹانگ کے اس حصے پر پھونک بھی مار دے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے تیزاب پھینک دیا ہو۔ اسکے باوجود ہوزے کام پر باقاعدگی سے جاتا ہے۔
ہوزے کی اس محنت اور مشقت کی کمائی کا پندرہ سے بیس فیصد ٹیکس کی شکل میں چلا جاتا ہے جس سے معذوروں، مریضوں اور سوشل سیکیورٹی لے کر گھر بیٹھے لوگوں کو روزی روٹی ملتی ہے۔
ہوزے کوئی ایک نہیں بلکہ اس جیسے لاکھوں ہیں۔
جیکسن سیاہ فام ہے اور گھروں کی چھتوں کی مرمت کا کام کرتا ہے۔ دو مرتبہ چھت سے گر چُکا ہے اور کمر کےمہرے بُری طرح فریکچر کروا چُکا ہے۔ مہروں کی مرمت اور پچکے پن کو دور کرنے کے لیے اُن میں ہڈی سے بنا سیمنٹ ڈالا گیا لیکن جیکسن نے پھرسخت کام کیا اور مہرے مزید خراب ہو گئے۔ سپائن سرجن نےاسکی”ڈھٹائی”کو دیکھتے ہوئے کمر میں لوہے کے راڈ ڈال دئیےتاکہ مزید خرابی نہ ہو۔ اب وہ آدھا دن کام کرتا ہے اور باقی آدھا دن درد سےبےچین اور رات کو بےخوابی کا شکار رہتا ہے۔
جیکسن کی اس محنت اور مشقت کی کمائی کا پندرہ سے بیس فیصد ٹیکس کی شکل میں چلا جاتا ہے جس سے معذوروں، مریضوں اور سوشل سیکیورٹی لے کر گھر بیٹھے لوگوں کو روزی روٹی ملتی ہے۔
جیکسن کوئی ایک نہیں بلکہ اس جیسے لاکھوں ہیں۔
میں درد کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہوں۔ میرےکلینکس میں مختلف اقسام کی دردوں مثلاً گردن، کمر، ریڑھ کی ہڈی، ٹانگوں، جوڑوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ریڑھ کی ہڈی کھولے بغیرآپریشن کیے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب جدید ترین ایکسرےکی روشنی میں کئے جاتے ہیں تاکہ جسم کے اندرونی اعصاب تک پہنچا اور انھیں ٹھیک کیا جا سکے، اس کے لئے بھاری دھات، لیڈ کی 15-10کلو وزنی جیکٹ ہمہ وقت پہن کر ہفتے میں تین سے چار دن روزانہ آٹھ گھنٹے کھڑا ہونا پڑتا ہے تاکہ آپریشن کے دوران ایکسرے کی شعاعوں کے مُضر اثرات سے اپنےجسم کو بچایا جا سکے۔ اس روٹین کی وجہ سے ہر دن کے اختتام تک پاؤں سُوجےہوتے ہیں اور چلنا بھی محال ہوتا ہے۔ کبھی کبھی پاؤں کے چھوٹے جوڑوں میں شدید درد (metatarsalgia) ہو جاتا ہے جو کہ آرام کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
میری اس محنت اور مشقت کی کمائی کا تقریباً چالیس فیصد ٹیکس کی شکل میں چلا جاتا ہے جس سے معذوروں، مریضوں اور سوشل سیکیورٹی لے کر گھر بیٹھے لوگوں کو روزی روٹی ملتی ہے۔
میں کوئی ایک نہیں بلکہ مجھ جیسے لاکھوں ہیں مثلاً کارڈیالوجسٹ، ریڈیالوجسٹ اور سرجن بھی ایسے ہی لیڈ پہن پہن کر اپنے خود کےجسم کا ستیاناس کر لیتے ہیں۔
ہوزے، جیکسن اور ہم جیسے دیگر کسی پر احسان نہیں کرتے، جس مُلک میں رہتے ہیں، جس مُلک میں سیکھنےکےاور پھرکمائی کےبہترین موقعوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، اُسی ملک کےقانون پر عمل کرتے ہوئے خوشی سے ٹیکس بھی دیتے ہیں جو کہ ہمارا فرض ہے۔ لیکن جب اُن معذوروں سے، اُن مریضوں سے اور گھر بیٹھے لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ کیوں دیا ہےتو کم و بیش سب کا جواب ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
کوئی وہی جواب استہزائیہ ہنسی سے دیتا ہے۔
کوئی وہی جواب مکاری سے دیتا ہے۔
کوئی وہی جواب بونگے پن سے دیتا ہے۔
کوئی وہی جواب حقارت سے دیتا ہے۔
اور کوئی وہی جواب اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے دیتا ہے۔
ہماری محنت کی کمائی کے ٹیکسوں پر پلتے یہ لوگ جواب دیتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اتنا “عقلمند”اور “ذہین” ہے کہ بیس سال سے ایک پیسا بھی ٹیکس نہیں دیا اس لئے اتنے “باکمال” انسان کو امریکہ کا صدر بننا چاہئے۔
اگر کالم پسند آئے تو شئیر کیجئے!
مزید کالم اور تجزیوں کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں، شُکریہ