ڈاکٹر اور جنسی ہراسیت

اینجلینا جولی کا شُمار دنیا کی بہترین اداکاراؤں اور بااثر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ اقوامِ مُتحدہ کی خیر سگالی اور مہاجرین کی سفیر کی حیثیت سے پُوری دنیا بالخصوص آفت زدہ ملکوں میں اپنا لوہا منوا چُکی ہے۔ وہ پاکستانی جو اسے نہیں جانتے تھے، ستمبر 2010 میں جاننے لگ گئے جب اس نے پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے دورہ کیا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے شاہانہ انتظامات اور اسلام آباد سے سرکاری جہاز بھیج کر اپنے بچوں کو ملتان سے اینجلنا سے ملوانے کے لئے لانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پوری دنیا اس دبنگ عورت کا لوہا ماننے پر مجبور ہوگئ۔ ان سب کے باوجود یہ ہالی ووڈ کے فلم پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن کی جنسی ہراسیت پر احتجاج نہ کرسکی اور بہت سالوں کے بعد جب رواں ماہ دیگر فلمی اداکارؤں نے وائن اسٹائن کی درندگی پر زبان کھولی تو اینجلینا جولی بھی چُپ نہ رہ سکی اور اپنے اوپر ہوا ظلم بیان کردیا۔ اس مثال سے جنسی ہراسیت کی اذیت، دہشت اور خوف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک انتہائی طاقتور خاتون بھی چُپ ہوکر بیٹھ گئ تو عام عورت اس سے کیسے مقابلہ کرے گی؟

شرمین عبید چنائے پاکستان کی جانی مانی شخصیت ہے۔ پاکستان میں خواتین پر تیزاب گردی کو بڑھا چڑھا کر آسکر ایوارڈ تو مل گیا لیکن غیرت کے نام پر قتل پر بنی فلم پر دوسرا آسکر پاکستان میں بہترین قانون سازی کا باعث بنا۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ایسے بھائیوں اور رشتہ داروں کے خلاف قانون سازی ہوئی جو بہن بیٹی کو مار کر بچ جاتے تھے اور انتہائی بے غیرتی سے “غیرت مند” کہلاتے تھے ۔ شرمین پر انتہا پسندوں نے شدید تنقید کی لیکن بہرحال اسکے کام سے یہ اچھائی نکلی۔ ایک ہفتہ پہلے شرمین عبید چنائے کی غُصے، غرور اور طاقت کے جوش میں لُتھڑی ٹویٹ آئی کہ ایک ڈاکٹر نے اسکی بہن کو ہسپتال میں چیک کرنے کے بعد فیس بُک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی ہے اور وہ اس ڈاکٹر کو نہیں چھوڑے گی۔ اس ٹویٹ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس ڈاکٹر کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ محض ایک فرینڈ ریکوئسٹ پر اتنی بدزبانی اور پھر ڈاکٹر کی نوکری سے فراغت پر راقم سمیت پوری قوم میں غُصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ چونکہ شرمین اسماعیلی ہے اور آغا خان بھی اسماعیلی اس لیے اس ڈاکٹر کے خلاف اتنی جلدی سخت ایکشن لیا گیا۔ جب میں نے غُصے کی کیفیت سے نکل کر سوچا تو چند سوالات ذہن میں آئے۔

کیا وہ اس ڈاکٹر کا پہلا واقعہ تھا یا کہ وہ پہلے بھی میڈیکل ریکارڈ سے خواتین مریضوں کے موبائل نمبر چُرا کر ٹیکسٹ یا فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتا تھا؟
کیا نرسوں، خواتین مریضوں یا مریضوں کے ساتھ آئی خواتین کی جانب سے پہلے کبھی کوئی شکایت آئی؟
اگر پہلا واقعہ تھا تو وارننگ ہی کافی تھی اور اگر یہ اسکی حرکتوں کا آخری قطرہ تھا جس نے ہراسیت سے بھرے جام کو چھلکا دیا تو پھر ہسپتال کی انتظامیہ نے یقیناً اصولی کاروائی کی ہوگی۔

اس واقعہ کے باعث آپ شرمین عبید چنائے کو جتنا مرضی بُرا بھلا کہہ لیں لیکن ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی اہم ایشو ہے اور بہت اچھی بات ہے کہ یہ موضوع شرم اور خوف کے پتھر سے زنجیر تڑوا کر سطح پر آگیا ہے۔

ڈاکٹر بننا ایک بھیانک حد تک خشک اور مسلسل محنت کا کام ہے۔ بلوغت کو چھونے کی جس عمر میں عام نوجوان حسیناؤں کے در پر چوکیداروں کی طرح گھوم رہے ہوتے ہیں، پری میڈیکل اسٹوڈنٹ کے پیٹ میں السر یا قبض ہو رہی ہوتی ہے کہ میڈیکل کالج کا میرٹ بن جائے گا یا پھر پانچ نمبر کم آئے تو وہ” ڈنگر ڈاکٹر” بنیں گے۔ پھر میڈیکل کے بعد ہر سال کے سخت پروفیشنل امتحانات کے بعد جب ہاؤس جاب میں پہنچتے ہیں تو بمشکل بیس فیصد شادی کرکے گھر والے ہو جاتے ہیں اور بقیہ اسی فیصد اکیلے رہ رہ کر “مرنے والے ہوجاتے ہیں”۔ ہاؤس جاب میں ڈاکٹر حضرات حسبِ شکل، حسبِ عقل اور حسبِ توفیق رومانویت کی “انّی پانے” کی کوشش کرتے ہیں۔ خوش شکل ڈاکٹروں سے زیادہ کم شکل کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ نرسوں اور مریضوں کی رشتہ دار خواتین کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہیرو ٹائپ ڈاکٹر تو شادی کرے گا نہیں، “کوجے” ڈاکٹر کو زندگی میں توجہ کم ملی ہوگی تو اسے زُلف گرہ گیر کا اثیر کرنا آسان ہوگا اور ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ نرسوں اور مریضوں کی تیماردار خواتین کو رام کرنا تو نائٹ ڈیوٹی میں فرضِ عین ہوتا ہی ہے لیکن کچھ ڈاکٹر گھٹیا پن کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے مریضوں سے بھی تعلقات پیدا کرلیتے ہیں۔

پاکستان میں جنسی ہراسیت مغرب کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ زندگی کے حقائق بےحد تلخ ہیں۔ کئی ایسے گھرانے جو دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی خواتین کو غیرت کے گڑھے میں یوں دفن کر رکھا ہے کہ وہ کسی مرد سے بات تک نہیں کر سکتیں، جب وہی خواتین مریضوں کی تیمار داری کے لئے ہسپتال میں ٹھہرتی ہیں تو زندگی سے اپنا خراج وصول کرنے کے لئے بسا اوقات چانس لیتی ہیں کہ شاید کوئی خوبرو ڈاکٹر انکا “راج” بن جائے۔ شاید کوئی کامیاب بھی ہوجاتی ہو لیکن زیادہ تر “راج”دانہ چُگ کر اُڑ جانے والے “پنچھی” ہوتے ہیں۔ اسی طرح چند خواتین جن کے شوہر سالہا سال بیرونِ مُلک پیسے جمع کر رہے ہوتے ہیں، دیگر بیماریوں کا علاج کروانے کے بہانے اکیلے پن کا “علاج” بھی ڈاکٹروں میں ڈھونڈتی ہیں۔ مردوں کے تشدد اور بے وفائی سے تنگ خواتین کے لیے بھی لے دیکر واحد محفوظ مردانہ تال میل ڈاکٹروں سے ہی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح “گائنی” کے وارڈ سے لیکر “پیڈز” کے وارڈ تک میں “مسیحا” مریضوں کے ساتھ ساتھ لواحقین کا بھی بغور “معائنہ” کرتے ہیں اور جنسی ہراسیت بھی یہاں آکر شرما جاتی ہے۔ ایسے حالات میں شرمین عبید چنائے جیسی خاتون جس کی آواز دنیا میں سنی جاتی ہے، ہوسکتا ہے کہ “ڈاکٹر مریض تعلقات” کے امریکہ یا یورپ جیسے سخت قوانین پاکستان میں رائج کروانے میں کامیاب ہوجائے۔ اس سے بہت سی خواتین، شکاری مسیحاؤں سے اور چند مسیحا، شکاری مریضوں کی ہراسیت سے محفوظ ہو جائیں گے۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *