ہزاروں سال پُرانی فیس بُک

“فیس بُک” کی ایجاد چودہ سو سال پہلے ہوگئ تھی جب با جماعت نماز کا حکم اس شدت سے دیا گیا تھا کہ بغیر کسی وجہ کے گھر پر نماز پڑھنے والوں پر سخت ناراضی اور قہر کا اظہار کیا گیا تھا۔ پھر جامع مسجد میں نماز کا مزید ثواب، مسجد نبوی میں تو رحمتوں کے نزول کی کوئی حد ہی نہیں اور مسجدالحرام میں لاکھوں نمازوں کا ثواب۔ لڑکپن میں سخت سردی میں وضو کرکے گرم چادر لپیٹے، کپکپاتے ہوئے مسجد کی جانب جاتے میں اکثر سوچتا تھا کہ کیا ضرورت تھی مسجد میں جانے کی، گھر پر ہی نماز پڑھ لیتا! پھرنشتر کی جامع مسجد سے لاہور کی بادشاہی مسجد تک، نیویارک کی جامع مساجد سے کولمبس کی نُور مسجد تک میں خطبے سُننے، لوگوں سے ملنے، باتیں کرنے کا موقع ملا۔ جن دنوں “فیس بُک” شروع کی، چند دوستوں کی دعوت کی تھی جو حج سے آئے تھے اور وہ جب حج کے دوران اپنے مصری، چینی اور یورپی ہم سفروں کے قصے بیان کر رہے تھے تو ایک دم دماغ میں ایک بجلی سی کوندی کہ ہماری فیس بُک تو چودہ سو سال پہلے شروع کر دی گئ تھی۔ ساری نمازوں اور اجتماعات کی ایک الٹ پلٹ سی فلم دماغ میں چلنی شروع ہوگئ، سمجھ آنے لگ گیا کہ، اسی الّلہ کی، اسی طریقے سے، انھی آیات کو گھر پڑھنے سے لیکر مسجد الحرام میں پڑھنے تک میں اتنا زیادہ ثواب کا فرق کیوں رکھا گیا اور اس پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے۔

اسلام میں حقوق العباد کو حقوق الّلہ پر فوقیت دی گئ ہے۔ کیسی کیسی حکایات ملتی ہیں کہ کبھی نماز روزہ نہ کرنے والا انسان، کسی انسان حتی کہ کسی جانور کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنے کے باعث الّلہ کی نظر میں معتبر ٹھہرا۔ کوئی شخص اپنے حج کے لئے برسوں کی جمع پونجی کسی انسان کی مدد کے لئے خرچ کرکے حج کو نہ جا سکا اور الّلہ کا حکم ہوا کہ اس انسان کا نا کیا ہوا حج بھی نا صرف قبول ہوا بلکہ اُسکے باعث سب حاجیوں کا حج مقبول ہوا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حقوق العباد کیسے پورے ہونگے تو جواب ہے کہ جب دیگر لوگوں کے ساتھ گھلیں ملیں گے تو ایسا ہوگا۔ محلے کی مسجد میں نماز سے محلے کے لوگوں کے مسائل، شہر کی جامع مسجد میں شہر کے مسائل اور بیت الّلہ میں امتِ مُسلمہ کے مسائل کا پتا چلے گا۔ مثلِ فیس بُک، دور دور رہنے والے لوگوں، دوستوں، بھائیوں کو جب مسجد یا حج پر دیکھیں گے تو انھیں “smile” دیں گے، “like” کریں گے، “live timeline” پر انکے حالاتِ زندگی جاننے کا موقع ملے گا، کوئی غم ہو تو “sad face” کوئی خوشی ہو تو کلکاریاں، دوسروں کے عزیزواقارب کی “pics” دیکھیں گے اور جیسے جدید ٹیکنالوجی اور کاروبار کی سہولتیں “فیس بک” پر اب میسر ہیں اپنے اپنے زمانے کے حساب سے دورانِ حج ان کا تبادلہ صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ پہلے پاکستانی اپنی “جدیدیت” مشرقِ وسطیٰ کو دیتے تھے اور آجکل لیتے ہیں، بہر کیف زندہ “فیس بُک” صدیوں سے ایکشن میں ہے۔ یہ ہے وہ وجہ جس کے باعث گھر سے نکلنے، لوگوں سے ملنے اور حقوق العباد ادا کرنے کے لئے با جماعت نماز اور حج فرض کئے گئے۔

ذی الحجہ کا مہینہ بے حد مُقدس ہے پوری امت مسلمہ بساط کے مُطابق قربانی کرتی ہے اور بیس لاکھ سے زائد لوگ حج کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قربانی کرتے ہی، اچھا گوشت فریج میں جاتے ہی ، انٹریاں گلی میں بکھرتے ہی اور کھال لالچی تنظیموں کے اراکین کو یاری دوستی کے باعث دیتے ہی یہ “قربانی” قربانی نہیں رہتی بلکہ وہی بکرا ذبح بن جاتی ہے جو قصاب خانے میں روز ہوتے ہیں۔ اس سے اچھا تو یہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے ایک دو ہفتے بعد آدھی قیمت پر یہی سب کام کرلیں۔ اسی طرح حج سے واپسی پر “تبدیلی” یہ آتی ہے کہ داڑھی بڑھ جاتی ہے، پائنچے اوپر ہو جاتے ہیں، ماتھے پر محراب کا نشان بن جاتا ہے اور باقی سب کچھ وہی۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی دوکاندار نے حج کرنے کے بعد ملاوٹ بند کر دی ہو یا کسی نے جھوٹ بولنا بند کر دیا ہو، کسی نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پہلے سے اچھا سلوک شروع کر دیا ہو یا کسی نے وقت کی پابندی کے ساتھ کام پر آنا شروع کردیا ہے۔ آپ کسی “حاجی صاحب” کو ان برائیوں پر ٹوک کر دیکھیں تو وہ ایک گہری روحانی سانس لے کر اوپر آسمان کی طرف دیکھیں گے اور پھر آپ کو دیکھ کر کہیں گے کہ “الّلہ معاف کرنے والا ہے”، تو کیا انھوں نے اتنے لوگوں کے اجتماع سے، “زندہ فیس بُک” سے یہ نہیں سیکھا کہ الّلہ اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن حقوق العباد معاف نہیں کرتا؛ وہ قربانی نہ کرنا معاف کردے گا لیکن محلے دار بھوکے رہیں اور وہ گوشت سے فریج بھرے، یہ معاف نہیں کرے گا، جانوروں کی انتڑیوں سے بیماریاں پھیلیں یا انکے باعث آوارہ جانور محلے میں آکر بچوں کو نقصان پہنچائیں، یہ معاف نہیں کرے گا۔

یہ حق ہے ایک مسلمان پر ایک مسلمان کا، ایک انسان کا کہ وہ اس پر احسان کرے۔ آپ محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے جائیں اور آپ ایک نظر دوسرے مسلمانوں کی طرف یا راستے میں کسی ہندو، عیسائی یا یہودی کی طرف غور سے دیکھیں تو ہونٹوں پر جمی پاپڑی سے لیکر نظر آتی ہڈیاں، آنکھوں میں مفلسی یا چہرے ہر بیماری دیکھ کر سوال کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنی بساط کے مطابق “جواب” دیں۔ یہ ہے روح اس با جماعت نماز کی، اس حج کے اجتماع کی اور اس فنڈ ریزنگ کی جو فیس بُک سے ہزاروں سال پہلے سے انبیا اور صالحین ضرورت مندوں کے “فیس” پر عیاں ضرورت، “بُک” کی طرح پڑھ کر کرتے آئے ہیں۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے، عید کے باعث اتوار کو لکھا جارہا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *