چودہ دسمبر 2014 کو جیسے ہی ہمارا جہازعلامہ اقبال ایرپورٹ لاہور لینڈ ہوا تو امیگریشن کے دوران پتا چلا کہ میری بیٹی کا امریکی پاسپورٹ واپس امریکہ روانگی سے پہلے ایکسپائر ہو جائے گا۔ پاکستان میں یہ آمد امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم “اپنا” کی نشتر میڈیکل کالج میں میٹنگ کے سلسلے میں تھی۔ راقم ان دنوں “نشتر الومنائی آف نارتھ امریکہ” کا صدر تھا اور ہماری ایلو منائی نے نشتر ہسپتال میں فلاح و بہبود کی بڑھوتری کے جو کام شروع کر رکھے تھے ان کا جائزہ لینا تھا۔ اہم کاموں میں امریکہ کے مایہ ناز نیورالوجسٹ ڈاکٹر افتخار خان نے نشتر میں جو اپنی مرحوم والدہ کے نام پر “رقیہ خانم آئی سی یو”بنوایا تھا اسکا انھی کے ہاتھوں افتتاح اور نشتر میڈیکل کالج کے ایک امریکی ڈاکٹر (جونامعلوم رہنا پسند کرتے ہیں) نے جو دس کروڑ روپے غریب میڈیکل اسٹوڈنٹس کی فیسوں کے لیے دئیے تھے، انکی میرٹ پر تقسیم کو یقینی بنانا تھا۔ خیر،بیٹی کے پاسپورٹ کو لیکر لاہور قونصل خانہ گئے تو وہ غیر معینہ مدت تک کیلئے بند تھا۔ رات کو ہوٹل میں رک کر صبح اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تو پتا چلا کہ پی ٹی آئی نے پورا لاہور بند کر رکھا ہے۔ ڈرائیور نے کمال ہوشیاری سے چھوٹی گلیوں میں سے نکال کر موٹر وے پر ڈال دیا اور موٹر وے پولیس سے ٹکٹیں لیتے تیزی سے اسلام آباد پہنچے۔ امریکی شہری ہونے کے باعث ایمبیسی میں فوراً بلا لیا گیا تاہم گورے پاسپورٹ آفیسر نے ایک دن کا وقت مانگا تاکہ تفتیش کرسکے کہ بچی ہماری ہی ہے کسی اور کی نہیں لیکر جارہے ہیں۔ اگلے دن وہ کافی مذاق کر رہا تھا کیونکہ اسنے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ فیس بُک پر بھی ہماری فیملی کی تصویریں دیکھی تھیں۔ اس نے کہا کہ پاسپورٹ بن رہا ہے باہر بیٹھ جائیں۔ اسی اثنا میں ویٹنگ روم میں ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلنے لگ گئ کہ اے پی ایس پشاور میں دہشتگرد گھس آئے ہیں، ہمارا دل بیٹھ گیا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کی شہادت کی خبریں اور تعداد بڑھتی رہی۔ تعداد ستر کے قریب تھی کہ پاسپورٹ آفیسر تیزی سے باہر آیا، ہمیں پاسپورٹ دیکر بولا، محفوظ علاقے میں رہنا اور محتاط رہنا۔ ایمبیسی کے باہر ہلچل سی مچ گئ تھی۔ ہمارا دل ڈوب رہا تھا۔ خبروں کیمطابق زخمیوں کو اسپتال لیکر جایا جارہا تھا۔ آرمی میں ایک دو سینئر آفیسرز رشتہ داروں سے رابطہ کیا کہ میں بطور ڈاکٹر اے پی ایس کے زخمی بچوں کے علاج کیلئے رضاکارانہ خدمات پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن کہا گیا کہ یہ فی الوقت ممکن نہیں کیونکہ اس پورے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئ تھی۔ بھاری دل سے واپس آئے اور ہماری ایگزیکٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سوائے رفاہی کاموں کے نشتر میٹنگ میں سارے فنکش کینسل کر دئیے جائیں۔ سارے فنکار پیسے لے چکے تھے اور لگ بھگ پچاس لاکھ کا ٹیکہ لگا لیکن اس واقعے کے بعد کسی کا دل ہی نہیں تھا گانے سننے کو، ہلہ گلہ کرنے کو۔
ع۔ اک آنکھ روئے تو دُوجی بولو سوئے گی کیسے بھلا
وہ چند ہفتے بےحد دردناک تھے۔ کچھ خبریں سنتے اور پڑھتے تھے لیکن اس سے دردناک اور اذیت ناک خبریں رشتہ دار فوجیوں سے ملتی تھیں جو کہ میڈیا کو یا پتا نہیں تھا یا اس بیہیمانہ درندگی کو بیان کرنے سے کتراتے تھے۔
آج اس درندگی کو تین سال ہوگئے۔ ہم بھول نہیں پائے اور نہ کبھی بھول پائیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہم نے کیا سیکھا؟ اور سیکھ کر کیا کیا؟ بچوں کی مائیں اسے “شہادت” ماننے سے انکاری ہیں اور بالکل منطقی بات ہے کہ انھوں نے بچوں کو اسکول بھیجا تھا، میدانِ جنگ نہیں۔
اسی طرح کل کوئٹہ میں چرچ کے حملے کی سی سی ٹی وی کا کلپ دیکھا۔ دونوں حملہ آوروں کی باڈی لینگویج بتاتی ہے کہ وہ اعلیٰ تربیت یافتہ نہیں تھے لیکن جو سیکیورٹی اہلکار تھا وہ تو ایسے کھڑا تھا جیسے پیزا ڈیلیور کرنے آیا ہو۔ اگر اسے صرف “این سی سی” کی دو ہفتے کی ٹریننگ دے دی جاتی تو اسے پوزیشن سنبھالنے اور اپر باڈی ٹارگٹ شوٹنگ کا پتا ہوتا اور ملزم کو گیٹ کھولنے سے روکا جا سکتا تھا۔ کیا اسے تعینات کرنے والے ایس پی کو نہیں پتا کہ یہ سپاہی فٹ پاتھ سے چھابہ اٹھوانے کے لیے نہیں بلکہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک ٹرینڈ کمانڈو کو تعینات کیا جانا چاہیے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اب ہم اپنے بچوں، اپنی عورتوں، اپنی اقلیتوں کی حفاظت کیسے کرسکتے ہیں۔
تو جواب یہ ہے کہ چونکہ مجرم ہم میں کہیں چھپ کر بیٹھے ہیں تو جانباز بھی ہم میں سے ہی نکالنے ہونگے۔ پولیس کو ستر سالوں میں کرپٹ سیاستدانوں کی رکھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے تو اب ممکن نہیں کہ چند سالوں میں انھیں “اقبال کا شاہین” بنا دیں۔
جس طرح ایف ایس سی میں “این سی سی”کے بیس نمبر ہوتے تھے اور سست سے سست لڑکے بھی کرتے تھے تاکہ وہ بیس نمبر سے میرٹ بنا سکیں، یہی “بیس نمبروں” کا لالچ عملی زندگی میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً چرچ یا مندر میں اسسٹنٹ یا مُلازم اگر بلیک بیلٹ ہو اور چھ مہینے کا ایس ایس جی یا ایلیٹ کورس پاس کرلے تو اسکی تنخواہ میں بیس ہزار روپے کا اضافہ ہو۔
دس بائی دس کا موٹے لوہے کا کیبن جس میں بیلٹ پروف شیشہ لگا ہو، جامع مسجد، چرچ،مندر، گردوارے، اسکول میں لازمی قرار دیا جائے۔ اور سیکیورٹی گارڈ اس میں بیٹھے۔ دس لاکھ روپے میں یہ بن جاتا ہے اور چندہ دینے والے مذہبی لوگ بخوشی یہ کریں گے۔ یاد رہے کہ دہشتگرد ہمیشہ اجتماع کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایک دو ہلاکتوں کی تو خبر بھی نہیں بنے گی، اس لیے اس کرسمس پر عیسائی برادری کی حفاظت سب سے بڑھ کر ہونی چاہئیے۔
اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں لائسنس اسلحہ سیف میں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بینکوں کی طرح اسکولوں میں ریڈ الرٹ سائیلنٹ الارم لگائے جاسکتے ہیں اور پولیس کی سال میں ایک بار “کیویک رسپونس ڈرل” لازمی قرار دی جائے۔ جو ٹیچر ایس ایس جی کا کورس پاس کرے اسے اگلے گریڈ میں پروموشن دی جائے۔
ہر سیکیورٹی گارڈ اور پولیس کے سپاہی کی کم از کم ایک کروڑ روپے کی لائف انشورنس تاکہ شہادت کے بعد اسکے بچوں کی تعلیم اور شادیوں کیلئے تنگی نہ ہو جبکہ ایک لاکھ مہینہ وظیفہ جب تک سارے بچے اکیس سال کے نہ ہو جائیں۔
ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری خود لینی ہے۔ ہمیں اپنی اقلیتوں کی ذمہ داری خود لینی ہے۔ اگر آپ پاکستان میں عیسائی یا ہندو کو نہیں بچاتے ہیں تو آپکو کوئی حق نہیں کہ گجرات یا فلسطین کے مسلمانوں پر ٹسوے بہائیں۔ ہمارے بچوں کو مار کر ظالموں نے ہمیں اکھٹا کرکے انکے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ یہ جنگ ہمارے گھر تک پہنچ گئ ہے لیکن اب وہ آئیں گے تو وہ نہیں، ہم انھیں ماریں گے۔شہید بچوں کی صدائیں للکار کر کہتی ہیں
ابھی بابا بھی باقی ہیں کہاں تک جا سکو گے تم
ابھی وعدہ رہا تم سے یہاں نہ آسکو گے تم
الّلہ آپ کواور آپکے پیاروں کو محفوظ رکھے! آمین
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ