1947 سے 2087 تک

آزادی کے ستر سال منانے کے بعد ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ ہم دو ہجرتوں کے عین وسط میں کھڑے ہیں۔ ستر سال پہلے جتنی قربانیاں دیکر لوگوں نے پاکستان سے انڈیا اور انڈیا سے پاکستان ہجرت کی، آنے والے ستر سال کے بعد اس سے بھی زیادہ قربانیاں دیکر دونوں مُمالک کے لوگوں کی “کہیں اور” ہجرت متوقع ہے۔

“سائنس ایڈوانسز” نامی ایک میگزین میں اگست 2017 میں چھپنے والی، لویولا یونیورسٹی اور ایم آئی ٹی میں کی گئ ایک تحقیق کے مطابق اگلے ستر سالوں میں انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اتنی گرم ہوائیں چلیں گی کہ 1.6 ارب لوگ اس سےمتاثر ہوں گے اور ان میں سے چار فیصد کے قریب لوگ جان سے جاسکتے ہیں (حساب آپ لگا خود لگا لیں)۔ تحقیق کے مطابق اس کا ایک ہلکا سا ٹریلر 2015 میں چلا تھا جب گرم لُو سے ہزاروں لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔ اگلے ستر سالوں میں ہوا میں نمی اور حبس کا تناسب اتنا بڑھ جائے گا کہ پسینہ بھی نہیں سوکھ پائے گا کہ جسم کو ٹھنڈک پہنچ سکے۔ اسے سائنس کی زبان میں wet-bulb temperature کہتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت رو پذیر ہوگی۔ ہجرت سے کہیں پہلے گرم لُو کے باعث فصلوں میں موجود پروٹین جھڑ جائے گی جس کے باعث خطے میں پندرہ کروڑ لوگوں میں پروٹین کی کمی ہو جائے گی۔ مزید برآں ،تحقیق اشارہ کرتی ہے کہ پچھلے سالوں میں انڈیا میں ساٹھ ہزار کسانوں کی خودکشی کا باعث بھی یہی موسمی تبدیلی بنی۔ یونیورسٹی آف ہوائی کے پروفیسر کمیلو مورو کی تحقیق کے مطابق ماسکو میں 2010 میں دس ہزار لوگ اور یورپ میں 2003 میں ستر ہزار لوگ “ہیٹ ویوز” سے مرے۔ تاہم یہ ممالک موسمی تبدیلیوں کا مُقابلہ کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔

اس بد نصیب خطے کا نصیب دیکھیں! ستر سال پہلے بھائیوں کی طرح ساتھ ساتھ رہتے مختلف مذاہب کے لوگوں نے ہجرت کے وقت مُنہ بولے بہن بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلی تو اگلے ستر برسوں میں اتنی بڑی ہجرت کس نفسانفسی کو جنم دے گی ؟یہ سوچ کر دل کی دھڑکن رُک سی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اتنے زیادہ لوگ جائیں گے کہاں ؟ تقسیم کے وقت تو جو تباہی ہوئی سو ہوئی ، اسکے بعد پچھلے ستر سال میں بھی دونوں مُلکوں نے کیا کیا ہے؟ سارے وسائل، سارا زور، ہمسائے کے خلاف ہتھیار اکھٹا کرنے پر لگا دئے اور اسی حماقت کے باعث ہمارے لوگ تعلیم، صحت اور پیٹ بھر کر روٹی سے محروم رہے۔ پاکستان کا بھی بُرا حال ہے لیکن چونکہ یہ تحقیق زیادہ انڈیا پر ہوئی ہے، آپ سوچیں کہ وہاں بھوک کا مسئلہ تو ہے ہی لیکن آدھی سے زیادہ آبادی یعنی ساٹھ کروڑ لوگوں کو ٹوائلٹ کی بھی سہولت نہیں۔ جب انڈیا والے “موقع موقع” کریں گے تو ہم بھی ظاہر ہے انھیں kiss تو نہیں کریں گے بلکہ اُنکی Hug کا ذکر کریں گے ( یہ Hug پنجابی والی ہے)۔ لیکن جب نسل اور مذہب پرستی سے بالاتر ہوکر محض انسان بن کر سوچیں تو کیا ظلم ہے کہ ایک عورت پورے کنبے کو پکا کر، کھلا کر بچے کچھے ٹکڑے ہانڈی کی کھُرچن سے رگڑ کر کھائے اور پھر لوٹا لے کر گھر سے باہر “بیٹھنے” کی جگہ ڈھونڈ رہی ہو۔ ایک تو سکون سے رفع حاجت بھی نصیب نہ ہو اور اس دوران بھی دیکھے جانے یا عزت لٹنے کا خوف ہو اور ایسا ایک آدھ بار نہیں بلکہ ہر روز ہو، تاحیات ہو!کتنا ظلم ہے!!! محسوس کرنے کی بات ہے! ایسے ہی کچھ معاملات پاکستان کے بھی ہیں۔ انڈیا کے “بھاؤ بِلّے” سے ڈرا کر اسٹیبلشمنٹ سفید ہاتھی بن کر بے تحاشا وسائل ڈکار گئ۔ ستر سال کی آزادی کے بعد آج اگر ایک عام انسان کو کوئی رات بجلی جائے بغیر، مچھر کاٹے بغیرنصیب ہو جائےتو یہ آسمانی نعمت سے کم نہیں۔ لوگ صاف پانی پینے تک کو ترس گئے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے پچھلے ستر سال بہت سخت گزرے اور اگلے ستر سال ای سی جی کی طرح جتنا مرضی اوپر نیچے جائیں لیکن اسکے بعد ایک سیدھی لائن نظر آرہی ہے اور ای سی جی پر سیدھی لائن موت کی علامت ہے۔ تو کیوں نہ اگلے ستر سال سکون سے گزارے جائیں؟ کیوں نہ فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ بموں، میزائلوں اور ایٹم بم سے پیدا شدہ ماحولیاتی آلودگی سے جان چھڑا لی جائے؟ کیوں نہ دونوں ملکوں میں ہتھیار جمع کرنے کی بجائے درخت لگانے کا مُقابلہ ہو، فصلیں اگانے کا مقابلہ ہو، صفائی کا مقابلہ ہو؟ اور آبادی کنٹرول کرنے کا مُقابلہ ہو۔ پانی ابھی سر سے نہیں گُزرا لیکن گردن تک آگیا ہے۔ اور اس بار، یہ صرف عام پاکستانی، انڈین یا بنگلہ دیشی کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ ہماری اشرافیہ کا بھی ہے۔ آج جنید صفدر کو بھی بادشاہت کی کرسی پر بیٹھے دیکھا لیکن اگر یہ بادشاہ اس خطے کے ساتھ مخلص نہ ہوئے تو خدانخواستہ نہ تو جنید صفدر کے پوتے کو حکومت کرنے کے لئے کوئی ملک دستیاب ہوگا نا ہی پریانکا گاندھی کی نواسی کو؛ نا ہی کسی راحیل شریف کی اگلی نسلوں کا “شُکریہ” ادا ہوگا اور نہ ہی بھٹو کی نسلوں کو “بھٹو زندہ رکھنے” اور حکومت کے لئے مملکت میسر ہوگی۔ عام لوگوں کے لئے نہیں تو انکی اپنی نسلوں کی حکمرانی کے لئے ہی خطے میں اجتماعی مثبت تبدیلی ناگزیر ہے، کاش کہ کوئی اس متوقع تباہی کا سدباب کرسکے!

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *