ایلان مسک موجودہ دور کا انسانی عجوبہ ہے۔ جدید دنیا میں کوئی بھی تحقیق, اعدادوشمار کی ممکنات کا جائزہ لے کر بتاتی ہے کہ فلاں ایجاد کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں مثلاً یہ بات اب زیرِ بحث ہے کہ انسان کی سوچ کو محفوظ کرکے مرنے کے بعد اسے روبوٹ میں منتقل کرکے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے امکانات (statistical significance) بہت کم ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ اسی لیے ایسے پروجیکٹس کو ریسرچ کے لیے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ تاہم پچھلی ایک دہائی میں ایلان مسک نے اعدادوشمار کی ایسی دھجیاں اڑائی ہیں کہ اب سائنسدان ریسرچ میں کسی بھی امکان کی کامیابی کی نفی کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بیٹری سے چلنے والی کار کے خیال پر لوگ ہنسا کرتے تھے اور سالِ رواں ایلان مسک کی بیٹری سے چلنے والی کاروں کی کمپنی ٹیسلا جو کہ 2003 میں قائم ہوئی نے اس سے ٹھیک ایک سو سال قبل، 1903 میں قائم ہونے والی فورڈز موٹرز کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ گویا کہ “سو فورڈ کی ایک ٹیسلا کی”!!! تین سال قبل، ایلان مسک نے ٹیسلا کے پیٹینٹ (ٹیکنالوجی کے حقوق) پوری دنیا کے لیے عام کردئیے تھے یعنی ہر کار کمپنی کو بیٹری سے چلنے والی کار بنانے کی اجازت دے دی۔ بیٹری کی کاروں کے سُلطان نے اکھاڑہ کھول دیا تھا تاکہ سب موٹر کمپنیوں کے پہلوان مل کر اس کا مقابلہ کریں اور وہ ثابت کردے کہ وہ جیت پھر بھی نہیں سکتے۔ اگلے مہینے ایلان مسک ایک سو میگا واٹ کی بیٹری جنوبی آسٹریلیا کے حوالے کرنے والا ہے اور اس بیٹری کی طاقت یہ ہے کہ ایسی پچیس بیٹریاں پورے پاکستان کے نکمے سیاستدانوں کے دعوں اور رشوت خور واپڈا سے زیادہ بجلی فراہم کرسکتی ہیں۔”رینالٹ نسان” کمپنی بھی ایک سو میگا واٹ کی بیٹری بنا رہی ہے اور محض اس ایک بیٹری سے یورپ کے ایک لاکھ بیس ہزار گھروں کو بجلی فراہم ہوگی۔ ایلان مسک کا 2030 کا ویژن یہ ہے کہ اگر پوری دنیا نہیں تو کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں 2030 تک اسی فیصد گاڑیاں پٹرول اور ڈیزل کے بغیر بیٹری کی مدد سے چلیں۔ اس سے پوری دنیا میں پٹرول اور پانی کی قیمت میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، اور یہاں سے شروع ہوتا ہے سعودی عرب کا ویژن 2030
تیل کی طاقت اور مقاماتِ مقدسہ کی حرمت کے باعث
مسلم دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے والا سعودی عرب بڑا پن نبھا نہ سکا۔ مخصوص دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کی مالی امداد سے لیکر کبھی ایران کے ساتھ سخت دُشمنی تو کبھی عراق سے عداوت؛ کبھی یمن پر حملہ تو کبھی شام میں دخل اندازی۔ اوپیک کی مدد سے تیل کی قیمتوں کو اتنا گرا دیا گیا کہ “چھوٹے دوکاندار” دوکانیں ہی بند کردیں تاہم ایسا ہو نہ سکا اور اب تیل کی قیمتوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف شدید ترین جنگ کے بعد یکے بعد دیگرے افغانستان، عراق پر امریکی مہم جوئی، لیبیا، مصر میں “عرب بہار” اور یمن میں جاری لڑائی کے باعث سعودی عرب دنیا میں تیزی سے تیل کے متبادل بالخصوص گاڑیوں کے بیٹریوں سے چلنے کے بڑھتے رجحانات پر توجہ نہ دے سکا۔ سابقہ سعودی بادشاہ عبدالّلہ بن عبدالعزیز کمر درد اور بیماری کے باعث غیر فعال رہا اور موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز 2015 میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے اور امریکہ کے صدر ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر کے دوست محمد بن سلمان کو ایک گہری سیاسی چال کے تحت سعودی عرب کا ولی عہد مُقرر کیا گیا۔ شُنید ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل “مل کر” ایران کا مقابلہ کریں گے جس کی مُبینہ مداخلت اور دھمکیوں کے باعث لبنان کا وزیراعظم سعد حریری استعفیٰ دے چُکا ہے۔ جیرڈ کشنر کے سعودی دورے کے فوراً بعد متعدد سعودی شہزادوں بشمول الولید بن طلال کو حراست میں لے لیا گیا اور اس دوران ایک شہزادے کو ہلاک کردیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ گرفتار کرنے والا داماد کا دوست اور گرفتار ہونے والا سُسر کا دوست جو کہ ٹرمپ کی مشکل وقت میں مالی امداد بھی کرتا رہا ہے۔ گُمان غالب ہے کہ کچھ دنوں کے بعد الولید بن طلال کو امریکہ کے کہنے پر رہا کردیا جائے گا اور اسے محمد بن سلمان کے سر پر لٹکتی تلوار کے طور پر رکھا جائے گا جس کی ڈوری امریکہ کے ہاتھ میں ہوگی؛ ڈونلڈ ٹرمپ، “ٹرمپ کارڈ” کھیل گیا۔
ولی عہد ،محمد بن سلمان، سعودی عرب کا “مریم نواز” ثابت ہورہا ہے؛ میرٹ کے بغیر پروموشن اور آتے ہی برسوں سے جُڑے خاندان کے ٹُکڑے کردئیے۔ کرپٹ طریقے سے زبردستی ولی عہد بننے کے بعد “کرپٹ لوگوں” کا محاسبہ یاد آگیا۔گو کہ جدید دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے وہ مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ، سماجی اور معاشی ترقی کا خواہاں ہے، تاہم جن مُلکوں کو سعودی عرب، انتہا پسندی کے فروغ سے ملنے والی کمائی کی لت لگا چُکا ہے اُن کا کیا بنے گا؟ ولی عہد کا سعودی تیل کمپنی آرمکو سے دو ہزار ارب ڈالر تجارت میں لگا کر کیا دبئی بننے کا خواب اگلے تیرہ سال کی محدود مُدت میں پورا ہوسکے گا؟ کیا ہر سعودی اپنی خواتین کو “ہنگامی بنیادوں پر” ماڈرن بننے اور گاڑی چلانے کی اجازت دے سکے گا؟ کیا اتنی تیزی سے ان مذہبی، سماجی اور معاشی اقدار میں تبدیلیاں آسکیں گی جن سے آپ نے پوری امتِ مسلمہ کو دہائیوں تک اثرانداز کیا ہے؟ مقاماتِ مقدسہ کے باعث ہماری دعائیں سعودی عرب کے ساتھ ہیں تاہم موجودہ صورتحال میں ایک نا تجربہ کار، میرٹ کے بغیر مقرر کردہ ولی عہد سوائے بربادی اور محلاتی سازشوں کے کچھ نہیں کرسکتا۔ ایلان مسک کا ویژن 2030 عام لوگوں کو مریخ کی سیر پر لے جائے گا لیکن اگر 2030 تک امتِ مسلمہ رینگتے رینگتے پیروں پر کھڑی ہوگئ تو یہ مریخ پہنچے سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ دعا ہے کہ ایسا ہی ہو۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ