Wednesday weekly column published in Jang Newspaper today. It’s related to ” Smoking of celebrities and it’s Impact on people”.

‎سگریٹ ، تمباکو نوشی اور کینسر بالخصوص پھیپھڑوں کے کینسر کا تعلق بہت پُرانا ہے۔ جرمن میڈیکل اسٹوڈنٹ ہرمین روٹمین نے 1898 میں یہ نظریہ پیش کیا کہ تمباکو کی فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین کو پھیپھڑوں کا کینسر تمباکو کی گرد سانس کی نالی میں جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس شک کو مزید تقویت 1910 کی دہائی تک مل رہی تھی لیکن سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے پیسہ خرچ کرکے پھیپھڑوں کے کینسر کا مدعا پہلی جنگِ عظیم کی بمباری سے اٹھنے والے زہریلے دھویں پر ڈال دیا تاہم 1940 تک یہ تعلق مزید کھُل کر واضح ہوگیا۔ چار جنوری 1954 کو ٹوبیکو انڈسٹری ریسرچ کونسل (TIRC) کا قیام عمل میں آیا اور امریکہ میں تقریباً چار سو اخباروں پر پورے صفحے کا اشتہار دیا گیا تاکہ تقریباً تینتالیس ملین انسانوں تک سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کا علم پہنچایا جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر بارہ میٹر لمبا سگریٹوں سے بھرا کارٹن کسی بھی شہر میں امپورٹ ہوتا ہے تو یہ اپنے ساتھ ساتھ دس اموات لیکر آتا ہے۔

‎امریکہ میں صدر نکسن نے 1970 میں پیلک ہیلتھ سگریٹ سموکنگ ایکٹ پاس کرکے ٹیلیویژن پر ایڈورٹائزنگ کو بند کر دیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہر قسم کے میڈیا پر پابندی لگا دی گئ۔ ہوٹلوں اور عمارتوں میں سگریٹ پینے کے لئے الگ مقامات بنائے گئے۔ کھلے عام سگریٹ نوشی کو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ فلموں میں اگر کسی سین کی ڈیمانڈ کے مطابق سگریٹ پی بھی جائے تو اسی سین پر اسی وقت مُضر اثرات کی تنبیہہ کی وارننگ آ جاتی ہے۔ کمال کرتے ہیں یہ ترقی یافتہ ممالک بھی! پانچ سو ارب ڈالر سالانہ کی انڈسٹری کو مشہوری سے روک دیا، محض اپنے لوگوں کی صحت اور زندگی کے لئے۔

‎چند دن پہلے سوشل میڈیا پر رنبیر کپور اور ماہرہ خان کی سگریٹ نوشی کرتے ہوئے تصاویر وائرل ہوئیں۔ یہ تصاویر نیویارک میں لی گئیں جہاں یہ دونوں ایک فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تصاویر کسی نے ان ستاروں کی مرضی کے بغیر لے کر لگا دی ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تصویریں فلم کی پبلسٹی کے لیے “پلانٹڈ” ہوں۔ مزے کی بات ہے کہ ان تصاویر کا دفاع کرنے کے لئے دیگر پاکستانی فلمی اور ٹی وی کے اداکار اور اداکارآئیں سامنے آگئ ہیں اور انکے کمنٹس اور ٹویٹس کچھ یوں ہیں ، “آزادی کو انجوائے کرنے دیں”، “کیا ماہرہ پر اُنگلیاں اٹھانے والے پاکیزہ ہیں”، “ماہرہ جو چاہے پہنے”، وغیرہ وغیرہ۔ تنقید سگریٹ نوشی پر اور دفاع کپڑوں کا سُن کر ایک پاکستانی سیاسی جماعت یاد آگئ جن سے پُوچھا جائے کہ “آپ کرپشن کیوں کرتے ہیں” تو جواب آتا ہے ” ہم نے جمہوریت کےلئے بڑی قربانیاں دی ہیں”- فلمی ستاروں کے یہ بیانات کسی حد تک ٹھیک بھی ہیں کیونکہ انسان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثریت کو اعتراض واہیات کپڑے پہننے پر نہیں بلکہ سگریٹ نوشی پر ہے۔ اب سگریٹ نوشی یا مشروب نوشی بھی ذاتی عمل ہے اگر چار دیواری میں کیا جائے اور “مشہوری” نہ کی جائے۔ جب ماہرہ خان، شاہ رخ خان کے ساتھ فلم میں آئیں تو شائقین بالخصوص پاکستانیوں نے سراہا اور فخر کا اظہار کیا، یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی تنگ دل نہیں بلکہ اعلیٰ ظرف ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سگریٹ نوشی پر یہ ہنگامہ کیوں؟ تو اُسکا جواب یہ ہے کہ پہلے ہی پاکستان میں خواتین کی سگریٹ نوشی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے “نیشنل الائینس فار ٹوبیکو کنٹرول” کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد مرد اور نو فیصد سے زائد عورتیں سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔

‎آج کی دنیا میں ایڈورٹائزمنٹ یا مشہوری کے لئے بڑی حد تک این ایل پی (نیور لینگوئسٹک پروگرامنگ ) کا سہارا لیا جاتا ہے جس میں تحت لاشعور کو قابو میں کیا جاتا ہے۔آپ میں سے جو خواتین و حضرات کافی پیتے ہیں اگر سوچیں تو دس پندرہ سال پہلے آپ ایک کپ پیتے تھے اور اب پورا مگ پی جاتے ہیں کیونکہ ایڈورٹائزمنٹ میں بھاپ اڑاتا بڑا مگ آپ کے لاشعور کی ایک کپ کافی سے تسکین نہیں ہونے دیتا۔ مشہور جرمن کار کمپنی آؤڈی، کروڑوں ڈالر خرچ کرکے بھی کاریں فروخت کرنے کا وہ ٹارگٹ اور پذیرائی حاصل نہ کرسکی جو “آئرن مین” کے آؤڈی چلانے سے حاصل ہوئی۔ اگر ایک سو خواتین ماڈلز سگریٹ پینے کی ماڈلنگ کریں تو شاید کوئی ایک پاکستانی لڑکی بھی ان سے متاثر ہوکر سگریٹ نوشی شروع نہ کرے لیکن ماہرہ خان کا عام زندگی میں “بے خبری” میں سگریٹ پینا کئ کچے ذہنوں کے “فینوں” کے تحت الشعور کو قابو میں لے سکتا ہے۔ ویسے بھی انٹرنیٹ، وٹس ایپ اور فیس بُک کی رسائی کے بعد “ماڈرن” اور “کُول” دکھائی دینے کے دلدادہ پاکستانی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے پاس جو سب سے وافر، آسان اور سستی چیز دستیاب ہے وہ سگریٹ ہے۔

‎کبھی کبھی بیچارے اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ میڈیا زیادتی بھی کرجاتا ہے اور انکی ہر چھوٹی موٹی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ شاید ہم میں ان سے زیادہ عیب ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم عام انسانوں کے عیبوں پر لوگ چار لفظ بھیج کر بھول جاتے ہیں اور کوئی اس سے اثر نہیں لیتا لیکن ان خوبصورت ستاروں پر لوگ جان چھڑکتے ہیں اور انکی پیروی کرتے ہیں تو اچھے بُرے کا اثر بھی لیتے ہیں۔ ویسے اگر ماہرہ خان “بےخبری” میں “چینٹکس” (سگریٹ نوشی سے چھٹکارے کی دوا) استعمال کرتی بھی دکھائی دے تو یہ فرض بنتا ہے کہ ہم دادو تحسین کے ڈونگڑے اس سے کہیں زیادہ برسائیں گے جتنی اب تنقید کر رہے ہیں ۔ تعریف تنقید سے زیادہ پُراثر ہے، انسانوں کے لئے بھی اور معاشرے کے لئے بھی۔

‎‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
‎ ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ

Image may contain: 1 person, smiling

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *