اس کہانی کا آغاز 2008 سے 2012 تک دوسرے نمبر پر طاقتور ترین عہدے پر برقرار رہنے والے ایک ایسے شخص نے کیا جو یہ سمجھ چکا تھا کہ عمومی سیاسی طور طریقوں سے کرپٹ زرداری اور شریف “پاش””پاش” نہیں ہو سکیں گے۔اتنی حساس نوعیت کے عہدے کے مالک کے پاس حتمی اطلاعات تھیں کہ 2008 میں باری لینے والا 2013 میں باری دے دے گا۔ دونوں طرف سے احتساب نہیں ہوگا۔ نیب کو معذور کردیا گیا تھا جبکہ ایف آئی اے اور انٹی کرپشن میں ٹاؤٹ بھرتی۔ اس عہدے دار کی ماضی میں شریفین سے ذاتی رنجش یا (اسکے ایک قریبی کے مطابق) اسکی ملک سے محبت نے اسے مجبور کردیا کہ “پولیٹیکل انجنئیرنگ” کی جائے۔ “بوٹوں” کے شیدائیوں کے لئے تو ایک “ٹیکسٹ” ہی کافی تھا کہ وہ “تبدیلی” کا حصہ بنیں لیکن جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو وطن کی بہتری اور شریفین کی ناقدری کا پتا پھینکا گیا۔ تبدیلی کا لشکر بننے کا عمل ٹھیک چل رہا تھا کہ چند سیاستدانوں جنھیں “تبدیلی” کا حصہ بننے کی درخواست کے ٹیکسٹ ملے تو انھوں نے معذرت کرلی۔ بعد میں جب یہ ٹیکسٹ دھمکی میں بدلے تو وہ سیاستدان “سگریٹ نوش” کے پاس پہنچ گئے۔ دوسرے نمبر پر طاقتور ترین عہدیدار کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی ہمت کریں گے لیکن یہاں وہ مار کھا گیا کیونکہ اس وقت تک “سگریٹ نوش” کے بھائیوں کو کو اربوں کے فائدے ان سیاستدانوں سے پہنچ چکے تھے وہ انکی اثر انگیزی کی گہرائی کو “انڈرایسٹیمیٹ” کر بیٹھا۔ “تبدیلی” ابھی کچی تھی لیکن بہرحال عمران کی اپنی محنت بھی بے مثال تھی سو کافی حد تک کامیابی مل گئی تاہم یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ “تبدیلی” عمران اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی اور “تبدیلی”کے انجن کو واقعی “سپر چار جنگ” کی ضرورت تھی۔
اب یہاں سے دو موقف سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ دھرنے کے دوران “بوٹوں” کو بُلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن شریفین کی دانش اور چوہدری نثار کے تدبر کے باعث یہ ناکام ہوا؛ جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں حال ہی میں ملنے والے ایک اہم “گھوڑے کے مُنہ” کے مطابق یہ بلف تھا۔ لمبے دھرنے میں شدید احتجاج اور کسی حد تک قتل و غارت کے بعد بھی “بوٹ” نہ آتے اور یہ مہر ثابت ہوجاتی کہ اب “راج کرے گی خلقِ خُدا” اور پھر عدالتی “خلقِ خدا” کے ذریعے ہی “کرپٹ خلق” کو خلاص کردیا جاتا۔ جولائی 2012 میں راقم کو نشتر ایلومنائی کے ڈنر میں مہمانِ خصوصی جاوید ہاشمی کی میزبانی کا موقع ملا اور اسکی “جذباتی غیر متوازنیت” پر ایک نوٹ بھی لکھا تھا جو کہ اسکی طبیعت، عمر کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر فالج کا شاخسانہ تھی۔ شریفین کی غیر موجودگی میں وہ اپنی مرضی سے “باغی” بن کر تکلیفیں جھیل کر خود کو اس مرتبے ہر فائز کرچکا تھا کہ “خود کش دھماکے” سے کم اسے کسی بات میں تسکین ہی نہیں ملتی تھی۔ یہی خودکش حملہ نون لیگ پر کرکے پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور جب ذہنی رو بہکتی، تو پارلیمنٹ میں نواز شریف کو لیڈر قرار دے دیتا۔ اگلے “خود کش حملے” کے انتظار میں وہ چند بوٹوں والوں کو خان سے ملتا دیکھ کر بھڑک گیا۔ اس وقت خان کا سب سے بڑا پتا ہاشمی تھا کیونکہ وہ بے پناہ کریڈیبیلٹی ساتھ لیکر آیا تھا۔ خان کو اسے بتانا پڑا کہ “ہاشمی صاحب آپ کو اعتراض “بوٹوں” پر ہے جبکہ اس بار انقلاب جج لیکر آئیں گے”- اور “ہاشمی بم”پھر بلاسٹ ہوگیا لیکن چونکہ اس وقت تک عدلیہ چھ چھ ماہ کی مدت کے چیفس کی آنیاں جانیاں دیکھ رہی تھی اس لئے کسی نے توجہ نہ دی۔ آپ یو ٹیوب پر موجودہ “عدالتی انقلاب” سے سالوں پرانی جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنسیں دیکھ سکتے ہیں جس میں اس نے “عدالتی مارشل لا” کا ذکر کیا۔ مزے کی بات ہے کہ اسی نشتر ایلومنائی کے فورم پر دو سال کے بعد جولائی 2014 میں ہمارے مہمانِ خصوصی چیف جسٹس تصدق جیلانی تھے۔ جب ان سے ہم نے پوچھا کہ آپ کچھ کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا کہ “ہمارا کام کچھ کرنا نہیں بلکہ آئین کی روشنی میں فیصلے سنانا ہے”؛ ایک پروفیشنل جج کا ٹھنڈا سا جواب “بورنگ” لگا لیکن خیر سے اب گرما گرم چیف جسٹس نے ہمارے سمیت قوم کا “دل لگا رکھا ہے”-
یہ بات طے ہے کہ ایک ا تو کسی کا اسکرپٹ، پروڈکشن اور ڈائریکشن حیرت انگیز طور پر پرفیکشن کے قریب ہے اور اس پر نواز شریف کی کم عقلی کو چار چند اسکی ہونہار صاحبزادی نے لگا دئیے ہیں جس کے پاس سوائے زبان کے واقعی کوئی اور “اثاثہ” نہیں۔ پانامہ لیکس سے لیکر ڈان لیکس کی “مس ہینڈلنگ” تک احتساب کا یہ سلسلہ “نارمل “لگتا رہا لیکن نواز شریف کو انجام تک پہنچنے کے اگلے روز ہی زرداری اور کمپنی کی فائلیں کھلنے کے ساتھ جس “بلی” کا دھرنوں میں ذکر ہوتا رہا وہ تھیلے سے باہر آگئی اور “گھوڑے کے منہ”سے نکلنے والی باتیں بھی سچ ثابت ہورہی ہیں۔ اس بار اسکرپٹ لکھنے والا زرداری جیسے ہوشیار کو بھی “مشترکہ حکومت” کے صدر کی بتی کروا گیا اور وہ نواز شریف کی قبر کشائی کے دوران تماشا دیکھتا رہا۔ اور اب زرداری کو پیپلز پارٹی کا “الطاف حسین” بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ بین الاقومی سطح پر پاکستان کا بینڈ تو Financial Action Task Force on Money Laundering نے پہلے ہی بجا رکھا ہے۔ اسکرپٹ لکھنے والے کو پتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو بوٹوں کی دھمک بُری لگتی ہے؛ لیکن اگر عدالتی فیصلہ ہو اور ہو بھی “منی لانڈرنگ” کے جُرم میں تو کس ملک کی شامت آئی ہے کہ نواز یا زرداری کا ساتھ دے۔ اسی لئے ناں امریکہ کا بیان آیا اور نہ ہی سعودی عرب کو دس سال قید پر کوئی مسئلہ ہوا۔
کہانی کا تیسرا حصہ اگست میں شروع ہوگا جو کہ سب سے زیادہ سنسنی خیز ہوگا۔ جو کاٹھ کباڑ پی ٹی آئی میں گیا ہے اب اس کو بھٹی میں جلایا جائے گا۔ عمران اس ڈیل سے آگاہ ہے اسی لئے اکیلا پانچ سیٹوں پر کھڑا ہے اور ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے پہلے اسی ناکارہ گردوغبار کو تبدیلی کی بنیادوں میں بھرا جائے گا اور پھر “ہر جماعت” کا “یکساں احتساب” کی مثال بنا دیا جائے گا۔ “الیکٹ ایبلز” کی سیاست انھی کے خلاف استعمال کی جائے گی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس سب کے بعد بھی عمران خان وزیراعظم بن سکے گا؟ اتنے پیچ و خم سے لبریز اسکرپٹ والی فلم کی اتنی سادہ “اینڈنگ”، عقل سے بالاتر لگتی ہے؛ اس سوال کے جواب پر “گھوڑے کے منہ” سے ایک معنی خیز مسکراہٹ نکلی اور وہ مصافحہ کرکے تیز تیز قدم اٹھاتا چل دیا۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-