یہ 1992 کا دسمبر تھا اور چند انسان دشمن، مذہب دشمن جانوروں نے بابری مسجد شہید کردی۔ حد سے زیادہ افسوس ہوا اور ہر جاننے والا رنج و الم کا شکار نظر آیا۔ یہ ایف ایس سی کے امتحانات کا زمانہ تھا اور کوئی پتا نہیں تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ دن چڑھے شور شرابہ سُن کر آنکھ کھلی تو پتا چلا ہمارے “محلے کے مجاہدین” بابری مسجد کے غصے میں جی ٹی روڈ بلاک کرکے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی کاروں پر پتھراؤ کر رہے ہیں اور سڑک پر ٹائر جلا کر ایسے گڑھے بنا رہے ہیں جن پر سے بعد میں بہت سے موٹرسائیکل والے فیملی سمیت حادثوں کا شکار ہوئے۔ شہر کے بیچ و بیچ ایک متروک گرجا گھر ہے جہاں تھانہ سٹی آباد ہے۔ اسکا ایک مینار سو فٹ کے لگ بھگ تھا۔ چند جانباز “جذبہ ایمان” سے سرشار ہوکر اس سو سال پرانے مینار کو گرانے اس پر چڑھ گئے اور خستہ حال مینار یہ بوجھ نہ سہہ پایا تو ان میں سے دو بلندی سے گر کر “شہید” ہوگئے۔ پہلی تو بات ہے کہ ناں تو ہندو اس شہر میں رہتے ہیں نہ اس مندر میں عبادت کرتے ہیں اور دوسری بات کہ اگر رہتے بھی ہوں تو ان کا بابری مسجد کی شہادت میں کیا کردار یا قصور؟ میرے نزدیک جو مزدور اپنے بچوں کے لئے حلال روزی روٹی کماتا بلندی سے گر کر مر جائے “شہید” ہے لیکن ایسی حماقتیں کرتا ہوا انسان ہرگز نہیں۔ تاہم اُن دنوں بھارتی مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں ایک بےبسی اور تاسف سا محسوس ہوتا تھا۔
لگ بھگ ایک ہفتے قبل “مجاہدین اسلام”نے رمضان المبارک کے رحمت اور سلامتی کے مہینے میں قادیانیوں کی ایک عبادتگاہ کو گرا دیا اور وہ عبادتگاہ جو سالوں بند پڑی تھی۔ ہمارا ایمان ہے کہ جو حضرت محمد صلی الّلہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سے حسنِِ سلوک کا بھی اتنا ہی حکم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جس طرح سکھ بھائی پشاور میں افطار کروا رہے ہیں، رمضان میں ایک دعوت قادیانیوں کی ہی کردی جاتی، غیر مسلم سمجھ کر۔ جب ہم کشمیر میں روتے ہیں کہ ہندو فوج نے پیلٹ گن سے جیتی جاگتی زندگیاں چھلنی شدہ لاشیں بنا دیں جب اسرائیل کی بمباری اور راکٹوں سے فلسطینی بچے بےدردی سے قتل ہوتے ہیں تو اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کا دکھ نظر کیوں نہیں آتا؟ اقلیت تو ہر جگہ ایسی ہی ہوتی ہے، اکثریت کے لیے کمتر اور “کافر”!!!
اگر آپ دس ایسے انسان لیں جنھوں نے کوئی مندر مسمار کیا ہو اور دس ایسے جنھوں نے کوئی مسجد شہید کی ہو اور ایک چھوٹی سی ریسرچ کریں؛ ہر ایک کے والدین ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، ہمسائیوں اور دوستوں سے ان کے رویے، محنت، ایمانداری، رزقِ حلال اور ذمہ داری سے متعلق سوالات ( questionnaire) کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ الگ الگ ملکوں میں رہنے والے الگ الگ مذاہب کے ان لوگوں کی “خصوصیات” تقریباً ایک جیسی ہوں گی۔ کوئی بھی اپنے رشتہ داروں، ہمسائیوں کے حقوق ادا نہیں کرتا ہوگا لیکن مسجد اور مندر گرا کر سیدھا سورگ اور جنت کی تلاش میں ہوگا یا پھر نیشنل ٹی وی کے کیمرے کے سامنے مذہبی عمارت گرانے میں “تعاون” کرنے پر ڈی پی او اور ڈی سی کا شُکریہ ادا کررہا ہوگا۔
یہ تو ہے انسانی، مذہبی اور اخلاقی پہلو؛ اب آجاتے ہیں سیاسی پہلو کی جانب۔ ایک چھوٹے سے علاقے میں چھوٹی مسجد گرانے پر اگر فرض بھی کرلیں کہ چند لوگوں کی جنت پکی ہوسکتی ہے یا کلیجہ ٹھنڈا ہوسکتا ہے مگر اس پر اس احتجاج کا کیا کریں جس کی گونج دنیا کے طاقت کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ جب سیالکوٹ میں یہ واقعہ ہوا، ہم بطور پاکستان امریکن پولیٹکل ایکشن کمیٹی، واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل پر افطار دے رہے تھے، وہی افطار جو ٹرمپ نے گزشتہ سال بند کردیا تو ہم نے شروع کردیا تاکہ ہم مسلمانوں کی آواز گونجے اور جو کانگریس مین اور سینیٹرز ٹرمپ کے افطار میں شرکت کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ ہمارے افطار میں آئے۔ ایمان کی طاقت مثبت طریقے سے دکھائی جاتی ہے ناں کہ منفی طریقے سے۔ واشنگٹن ڈی سی کے طاقت کے ایوانوں میں آنے جانے سے کچھ سُن گُن ملتی رہتی ہے اور ذہن میں رکھیں کہ ایران کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ انٹرنیشنل کمیونٹی میں صبر کا گلاس بھر چکا ہے۔ اسد درانی جیسے لوگ اسے چھلکانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں اور اگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو “چھلکنے” کا اس سے اچھا بہانہ ممکن نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کی خلاف درزی، وہ مقام ہے جہاں چین اور روس کے پر بھی ہماری مدد کرنے پر جلتے ہیں۔ اب یہاں آکر چند جوشیلے جو اپنی روزمرہ زندگی میں حقوق ادا نہیں کرسکتے، “جذبہ جہاد” یا ایٹم بموں کی تڑیاں لگانا شروع کردیں گے ظاہر ہے ان کو یہ نہیں پتا کہ پاکستان کو ہرانے کے لیے اقتصادی پابندیاں ہی کافی ہیں۔سعودی عرب نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، چین اور روس تجارت کرتے ہیں مدد نہیں۔ پانی اور خوراک کے ذخائر ہمارے پاس مہینے بھر کے بھی نہیں ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج بھی بہت دیر ہو چکی ہے لیکن پھر بھی ہمت کرکے بین الاقوامی سطح پر دہشتگردی اور اقلیتوں پر تشدد پسندی پر قابو پا کر نیک نامی حاصل کرسکتے ہیں ورنہ دیکھ لیں کہ کیسے محض ایک سال میں سعودی عرب 360 ڈگری پر گھوم گیا، ایران کے بلوچستان کے سرحدی علاقے میں لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔چالیس ہزار ایرانی ریال کا محض ایک امریکی ڈالر ہے لیکن عملی طور پر ایران میں ایک لاکھ ریال میں بھی ایک ڈالر نہیں مل رہا۔ بچپن سے سنی ہوئی امریکہ کے خلاف ایرانی، عراقی، قذافی اور سعودی بڑکیں اپنے انجام کو پہنچیں اور اب دنیا ہمارے خلاف کسی بہانے کی تلاش میں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ بہانہ خود ہی بنا لیں لیکن کم از کم ہم تو اقلیتوں پر ظلم کرکے موقع نہ دیں۔ آگے “مجاہدینِ اسلام” کی مرضی!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔