امریکہ میں مسلمانوں پر پابندی

امریکہ کی عدالتی تاریخ میں آج کا دن ایک سیاہ دن کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر انسانوں پر پابندی ایک ایسا بھیانک عمل ہے جس کی کبھی امید کم از کم امریکہ میں نہیں کی جاسکتی تھی۔ شام، صومالیہ، لیبیا، یمن اور ایران پر پابندیوں کی سپریم کورٹ سے توثیق انتہائی مایوس کن ہے۔ پاکستان کا نام ابھی تک تو اس فہرست سے باہر ہے لیکن “ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ” کے مصداق، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مزید آگے جانے سے پہلے، ۲ مئی ۲۰۱۸ کو لکھے گئے اپنے کالم، “اپنا کی نوجوان ڈاکٹروں کے لیے جدوجہد” سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے
کیپیٹل ہل کی طاقت کی غلام گردشوں سے باہر آتے ہوئے “آری مٹلمین” نے دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ اس ملک امریکہ میں مسلمان اور یہودی اکھٹے آئے۔ آج اتنے امیر ڈاکٹروں کی تنظیم ویزوں کے رونے رو رہی ہے جبکہ آج ہی کے دن مسلمانوں پر امریکہ کے بین کی سپریم کورٹ میں سنوائی ہے اور سپریم کورٹ کا آدھا بینچ یہودی ہے جبکہ تیرہ فیصد سینیٹ یہودی ہے۔ امریکی پاکستانیوں میں بھی اندرونِ خانہ، خانہ جنگی سارا سال دماغ اور وسائل کو مختلف الیکشنز میں الجھا کر رکھتی ہے۔ امریکہ کی اشرافیہ میں ہمارے “لفظی جینئس” بات بات پر کہتے ہیں کہ بیوقوف پاکستانیوں کو کیوں سمجھ نہیں آتا کہ اگر پاکستان میں کالا باغ ڈیم آج شروع نہ کیا گیا تو اگلے بیس سال میں خشک سالی اور قحط سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں مر جائیں گے؛ لیکن انھیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کہ اگر آج، کانگریس، سینیٹ، کاؤنٹی، ملٹری اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہماری نمائندگی نہ ہوئی تو اگلے بیس سالوں میں یہ “مسلم بین” کا سانپ اژدھا بنتا ہوا ہمیں ایسا ہی حقیر کیچوا بنا دے گا جیسے یونان کے کلیساؤں کے غلام تھے، عرب میں عجمی تھے، گوروں میں کالے تھے اور انڈیا میں دلت تھے بلکہ ہیں۔اس کا حل صرف “ایڈووکیسی ورکشاپس” اور آگاہی ہیں۔ “اپنا” اور دیگر تنظیموں یک سالہ “ڈنگ ٹپاؤ”پالیسی سے اوپر سوچنا پڑےگا ورنہ انجام نوشتہ دیوار ہے”۔
اور آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے لگ بھگ دو مہینے قبل لکھے گئے کالم کی توثیق کردی۔

امریکہ میں ہم جیسے پاکستانی جو کہ امریکی شہری ہیں ایک اور عجیب سی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم “امریکی شہری” ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ حالانکہ اگر گرین کارڈ والے بھی پابندی کے چکر میں آسکتے ہیں تو ہر وہ امریکی شہری جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوا، کی کسی بھی وقت شہریت چھینی جاسکتی ہے؛ 1930 میں میکسیکن امریکی شہریوں اور 1940 کی دہائی میں پرل ہاربر پر حملے کے بعد جاپانی امریکی شہریوں سے شہریت چھینی بھی جاچکی ہے اور بغیر کسی قصور کے بھیانک کیمپوں میں بھی ڈالا چکا ہے۔ یہ سب لوگ بھی ایسی ہی غلط فہمیوں کا شکار تھے۔

کسی زمانے میں سنتے تھے کہ پاکستانیوں کے جہنم میں کوئی پہریدار نہیں ہوگا جو بھی باہر نکلنے لگے گا دوسرا کھینچ لے گا، اسکا عملی مظاہرہ امریکہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جتنا ٹرمپ مسلمانوں کا دشمن ہے اتنا ہی پاکستانی ایک دوسرے کے ہیں۔ اتنے پڑھے لکھوں کی زبان سے لسانی اور صوبائی تفرقہ بازی بیان سے باہر ہے۔ جیسے سانپ کے پاس کوئی “سیلیکشن کرائٹیریا” نہیں ہوتا کہ کس کو ڈسنا ہے کس کو نہیں بلکہ زہر سے ملغوب ہوکر کسی کو بھی ڈس لیتا ہے ؛ ایسے ہی تفرقہ باز کا حال ہے- جو پنجابی، سندھی سے مخلص نہیں، یقین مانئیے وہ پنجابی سے بھی مخلص نہیں ہوگا؛ اسی طرح جو سندھی، بلوچی سے مخلص نہیں ہوگا وہ سندھی سے بھی نہیں ہوگا؛ باقی سب جذباتی تقریریں اور ڈھکوسلے ہیں۔ صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دینے والوں کو پاس سے دیکھو، آزما کر دیکھو تو ایسے انسان “تھوتھا چنا باجے گھنا” کے مصداق اندر سے برتن کی طرح خالی نظر آتے ہیں،سگے یہ کسی کے نہیں ہیں۔ ضرورت اس وقت غیر مشروط اتحاد کی ہے ورنہ یہ خالی پن اور یہ خوش فہمی کہ ہمیں کچھ نہیں ہوگا، جلد ہی دور ہو جائے گی؛ اب یہ بات سالوں کی نہیں، خاکمِ بدہن مہینوں کی لگتی ہے۔

انسان کے ہاتھ میں برے سے برے حالات میں بھی صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے مثبت تبدیلی کی کوشش۔ جس روز سپریم کورٹ میں مسلم بین کی سنوائی تھی، امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم “اپنا” کی “ایڈووکیسی کمیٹی” نے فیصلہ کیا کہ اپنی کمیونٹی اور نئی نسل کو امریکہ کی سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ اگر آج کانگریس اور سینیٹ میں محض پچیس یا تیس مسلمان نمائندگان ہوتے تو “مسلم بین” ہرگز نہ لگتا۔ سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کو جو لامتناہی طاقت دے دی ہے، وہ اسکا استعمال کرنے سے بعض نہیں رہے گا۔ مزید برآں پاکستانی کمیونیٹی کو اپنے جذباتی حصار سے نکل کر عملیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، فوری بنیادوں پر ریپبلیکن پارٹی کے ساتھ بہترین تعلقات بنانے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا جتنا مرضی تھوُ تھوُ کرلے، عام امریکی ٹرمپ کے اقدامات سے خوش ہیں۔ یہ دوبارہ بھی جیت سکتا ہے؛ اور اگر عقل سے کام نہ لیا گیا تو یہ جیت کسی بھی قوم کی ہار بن سکتی ہے۔ سات جولائی یعنی محض دس دن بعد، امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں “اپنا” کی سمر میٹنگ کے دوران “ایڈووکیسی ورکشاپ” یعنی “امریکہ کی سیاست میں پاکستانی کیوں اور کیسے شامل ہوں “کا انعقاد ہو رہا ہے۔ وہ پاکستانی ڈاکٹرز جو اپنی پریکٹس چھوڑ کر امریکہ میں میئرز، کونسل مین، سینیٹ، انشورنش کمشنر کے عہدوں پر براجمان ہیں یا کوشش کررہے ہیں، اس ورکشاپ میں ہماری نئی نسل کی رہنمائی کریں گے۔ شرکاْ کے اہم ناموں میں ٹیکساس کے شہر پیرس کے مئیر ڈاکٹر ارجمند ہاشمی، کنکٹیکٹ سے مئیر ڈاکٹر سعود انور، ڈیلس سے کونسل مین ڈاکٹر شاہد شفیع، حال ہی میں کیلیفورنیا سے انشورنس کمشنر کے الیکشن میں آٹھ لاکھ ووٹ لینے والے ڈاکٹر آصف محمود شامل ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے دو ریپبلیکن پارٹی کے ہیں اور دو ڈیموکریٹ پارٹی کے۔ عمومی شکایت ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکستانیوں کی نئی نسل پاکستان کی فلاح بہبود میں دلچسپ نہیں لیتی لیکن امریکہ میں ہی پلنے پڑھنے والے، اور سیاسی میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دینے والے گواہرِ نایاب جن میں امینہ ضیا محی الدین، اطہر ترمذی، فاروق مٹھا اور خرم واحد شامل ہیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت کے لئے موجود ہونگے۔ اسی ورکشاپ میں اسٹیٹ اور فیڈرل ڈیپارٹمنٹ سے افسران ہماری نئی نسل کو آگاہی دیں گے کہ کیوں اور کیسے ان شعبوں کا حصہ بننا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی جواں سال سفیر علی جہانگیر صدیقی مہمانِ خصوصی ہونگے جو کہ ناصرف خود امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ امریکی پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کے لئے دل و جاں سے کوشاں ہیں۔ اس ورکشاپ کے انعقاد کے لئے پوری ٹیم نے بےحد محنت کی ہے، آپکی شرکت اس میں ضروری ہے، آپکے لئے، ہمارے لئے، ہم سب کے بچوں کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی۔ “شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات”!!!! آپکا انتظار رہے گا!

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *