ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر لگی لپٹی کے بغیر پاکستان کے خلاف اپنے جذبات کا برملا اظہار کردیا ہے۔ “ڈو مور” کے نام پر ایسے جذبات پر ڈپلومیٹک شہد چڑھا کر، بش اور اوبامہ بھی یہی کچھ کہتے آئے ہیں لیکن ٹرمپ نے شہد اتار کر ہمارے لیے یہ بیانیہ اتنا کڑوا بنا دیا ہے کہ سب تھُو تھُو کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی بات سے ہم اتفاق نہیں کرتے لیکن ہرملازم یا مالک اس تجربے سے گزرا ہوگا کہ جب بھی “کنٹریکٹ” کو واضح الفاظ میں نہ لکھا جائے، اور دونوں فریقین میں محض توقعات رکھی جائیں اور طرفین کی توقعات مطابقت نہ رکھتی ہوں تو مالک اور مُلازم یا مالک اور ٹھیکیدار میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور جھگڑے پروان چڑھتے ہیں۔ آخر میں وزن اسی کا بھاری ہوتا ہے جس پلڑے میں اختیار اور پیسہ ہوتا ہے
ع۔ وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
یہاں ایک اور بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ فوج کی عقل و دانش اور دور اندیشی کو سلام کہ خواجہ آصف جب وزیرِ دفاع تھا تو اسے “او ایس ڈی” بنا کر رکھا اور اتنی لفٹ نہیں کروائی کہ بطور وزیر دفاع فوج کی طرف سے کوئی بیان دیتا دے۔ موصوف جب سے وزیرِ خارجہ بنے ہیں زیادہ وقت ویسے ہی امریکہ گزارتے ہیں اور پھیکی بڑھکیں مار کر اپنا سیالکوٹی ووٹ پکا کرتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ جب ہم امریکہ کے ایف سولہ لے کر بھی کچھ نہیں کرسکتے اگر وہ سپئیر پارٹس نہ دے اور گردشی قرضوں کی ادائیگی تک کے لیے پیسے نہیں پھر بھی بڑھکیں عوام کا دل خوش کرکے ووٹ پکے کرسکتی ہیں تو ٹرمپ کی بڑھکیں اور دھمکیاں بھی امریکہ کے گاؤں اور دیہاتوں کے “کھڑپینچوں” کے دل گرماتی ہیں۔ یہی کھردرا پن اور بیباکی، ہیلری کلنٹن کے سیاسی اور مبہم بیانات کو کھا گئ۔ میرے کلینیکس بھی ایسے ہی چھوٹے قصبوں میں ہیں اور جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں میری مُنہ پھٹ سیکرٹری طنزیہ ہنسی ہنستے پوچھ رہی ہے “تو کیا واقعی اب پاکستان امریکہ سے مزید مالی مدد نہیں مانگے گا”؟ اور میں نے جواب دیا “تو کیا واقعی ٹرمپ “ونس مکماہن” کی طرح طالبان کے ساتھ کشتی خود لڑے گا، پاکستانی فوج سے ڈو مور نہیں کہے گا”؟
گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ اب کیا ہوگا اور آگے کیا ہوگا؟ اس سے بھی اہم کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا؟پاکستانی وزیر یا اسٹیبلشمنٹ جتنے مرضی پینترے بدل لے یا تیوریاں چڑھا لے، امریکی انتظامیہ کو پرواہ نہیں۔ قرض خواہ کے نزدیک قرض دار کے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔ مانا کہ افغان جنگ میں جنرل ضیا نے امریکی سر پرستی میں کل کے مجاہدین اور آج کے دہشتگرد اُگائے تھے لیکن ٹرمپ تو اپنے پارٹی کے پرخچے اُڑا کر جیتا ہے؛ اسے جمی کارٹر یا رونلڈ ریگن کے اعمال کی کیا پرواہ؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ “آٹو امیون میکنزم” (autoimmune mechanism) کے تحت ہمارے گلے پڑی ہے اور اس میلنزم کا مطلب جاننے کے لیے یوں سمجھ لیں کہ امریش پوری جب سنی دیول کو اپنے دشمن مارنے کے لیے غنڈہ بناتا ہے تو آخر میں وہ امریش پوری کو بھی مار دیتا ہے۔
اب اپنے ملک کے لیے جو بھی کرنا ہے وہ پاکستانی امریکیوں نے کرنا ہے۔ امریکہ میں سیاستدانوں کے ساتھ تعلقات بنانے کے لیے پولیٹیکل ایکشن کمیٹی سب سے اہم راستہ ہے۔ ہم اکثر امریکہ میں لابنگ کا لفظ سُنتے ہیں تو اسکا قانونی طریقہ ہے پیک (PAC ) یعنی پولیٹکل ایکشن کمیٹی کو فیڈریل الیکشن کمیشن میں رجسٹر کروانا۔ اس طریقے سے پیک کے ذریعے امریکی سیاستدان کو جو بھی رقم دی جاتی ہے، پائی پائی کا اندراج فیڈریل الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ہوتا ہے اور یہ پبلک ہے یعنی کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ امریکن اسرائیلی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (AIPAC) نے 2016 کے الیکشنز میں دونوں بڑی پارٹیوں کو سترہ ملین ڈالرز دئیے۔ اس سے آپ انکے اثرورسوخ کا اندازہ لگا لیں۔ پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پاک پیک)پاکستانیوں کی سب سے موثر پیک ہے لیکن بار بار کی کوششوں کے باوجود پاکستانی امریکی ،پاک پیک کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانیوں کی آبادی چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔اگر ہر پاکستانی سال میں محض ایک سو ڈالر پاک پیک کو دے تو یہ سال کے چالیس ملین ڈالر بنتے ہیں۔ سوچیں پھر پاک پیک کتنا موثر عمل کرسکتی ہے۔ کم فنڈنگ کے باوجود آج بھی پاک پیک کے بیس سے پچیس چیمپینز سیاستدان کانگریس اور سینیٹ میں پاکستان کی سائیڈ لیتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر اعجاز کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گی جو APPAC بنا کر نیویارک میں پاکستانیوں کا امیج بہتر بنانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستانی امریکیوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی پیک کا حصہ بنیں۔ پاک پیک نہیں تو اے پی پیک، وہ نہیں تو اپنی نئی پیک بنا لیں لیکن محض تماشائی نہ بنیں کیونکہ تماشائی کو تماشہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہم اپنے پاکستان اور پاکستانیوں کو ٹرمپ کے سامنے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ ہاریں یا جیتیں، پیچھے نہیں ہٹیں گے، قانونی اور سیاسی میدان میں مقابلہ جاری رکھیں گے۔
نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ