امریکہ میں پولیٹکل ایکٹوازم کے دور میں راقم کو آج تک تین سفیروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جبکہ سابقہ سفیروں سے محض کبھی کبھار سلام دعا ہوئی۔ سب سے پہلے جن کے ساتھ کام کا موقع ملا وہ جلیل عباس جیلانی تھے؛ نہایت مدبر، کم گو، ملنسار انسان تھے۔ ان کا دروازہ ہر پاکستانی کے لئے کھلا تھا اور وہاں “اپنا” سے لیکر مسلم لیگ ن امریکہ اور دیگر تنظیموں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مُلتان سے تعلق ہونے کے باعث، جنوبی پنجاب کے لئے خاص نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ان کے دور میں پاکستان امریکہ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے لیکن انکا وائٹ ہاؤس سے تعلق جُڑا رہا یہاں تک کہ ایک رات خاتون اوّل، مشال اوبامہ، جیلانی صاحب کے گھر “سرپرائز وزٹ” کے طور پر پہنچ گئیں اور انکی فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ انھوں نے تین سال تین ماہ کا عرصہ امریکا میں بڑے سکون سے گزارا جس کی ایک وجہ اوبامہ حکومت کا ٹھہراؤ اور (غالباً)دوسری وجہ اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سے قریبی رشتہ داری تھی۔ جب سپریم کورٹ کا جج اتنا قریبی ہو تو عموماً “غیر ضروری” ٹرانسفر نہیں ہوتا۔
اس کے بعد آتے ہیں اعزاز چوہدری، کمال کے پروفیشنل، محب وطن، کھردرے لہجے میں اپنی بات لگی لپٹی کے بغیر آپ تک پہنچا دیتے جو کہ “نان ڈپلومیٹک” مگر بہترین رویہ تھا۔ شاعری سے لگاؤ اور انکی فیورٹ غزل “خزاں کی رت میں گلاب لہجہ، بنا کے رکھنا کمال یہ ہے” ابھی بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ انھوں نے سختی سے منع کیا تھا کہ کوئی “مسلم لیگ ن امریکہ” یا “پی ٹی آئی امریکہ” کا ونگ بن کر نہ ملنے آئے؛ پاکستانی امریکن بن کر ملنے آئے۔ انکی خدمات آنے والا وقت بتائے گا کیونکہ وہ امریکہ کے کونے کونے میں جاکر پاکستانی امریکیوں کو اکھٹا ہونے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ترغیب دیتے رہے۔ ان کی اس محنت کے باعث پاکستانی امریکیوں کی ایک پبلک افیئر کمیٹی کو بہت مدد ملی جو کہ اب امریکہ میں پاکستان کے لئے کوشاں ہے۔ “نامعلوم” وجوہات کے باعث انھیں ایک سال بعد ہی واپس بلا لیا گیا۔
اسکے بعد آتے ہیں علی جہانگیر صدیقی! وہ اپنے ساتھ خبریں اور اسکینڈل لیکر آئے۔ انھوں نے آتے ہی پہلے ہفتے بات چیت کرکے پاکستانی ڈاکٹروں کے امریکہ کے ویزوں کے لئے مدد کی یقین دہانی کروائی اور ہر دم پیش پیش رہے۔ سلجھے ہوئے پاکستانیوں نے انھیں عزت دی اور وہ چند جو شام کا اخبار پڑھ کر ارسطو بن جاتے ہیں نے ان پر طعن و تشنیع کی بارش کردی۔ ان کے اوپر جو بھی کیس چل رہے ہیں وہ پاکستان میں ہیں۔ اگر وزیراعظم نے سفیر نامزد کیا اور کوئی مسئلہ تھا تو نیب اور سپریم کورٹ روک سکتے تھے، سیکرٹری خارجہ رکاوٹ بن سکتے تھے لیکن جب وہ یہاں آگئے تو ہمارے جھنڈے کے سفیر ہیں اور قابل احترام ہیں۔ مزید برآں، امریکی میں کسی بھی مُلک کے سفیر کو صدر مملکت کو اپنی تعیناتی کے کاغذات پیش کرنے کا بلاوا جب آتا ہے جب سیکرٹ سروس اسکی اہلیت جانچ لیتی ہے۔ اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بابا رحمتے کی موجودگی میں کوئی “نیب کو مطلوب” سفیر کیسے بن سکتا ہے۔دوسرا سوال آتا ہے کہ وہ کیرئیر ڈپلومیٹ نہیں؛ تو کیا شیریں رحمان اور حسین حقانی کیرئیر ڈپلومیٹ تھے اور انھوں نے موجودہ وزیر خارجہ کے ساتھ ہی کام کیا تھا۔ ہر سال نیا سفیر قدم ہی جما نہیں پائے گا تو کرے گا کیا۔موجودہ سفیر کو اگر واپس بلانا ٹھہرا تو میرٹ پر کیرئیر ڈپلومیٹ کو لایا جائے۔
ہماری سیاسی وابستگیاں پاکستان کی سرحد تک ہیں، ہمیں ایک بات کو ذہن میں ہمیشہ رکھنا ہے کہ ہماری پہلی محبت پاکستان ہے اور بیرون ملک جستجو پاکستان کے لئے ہے ناں کہ کسی پارٹی کے لئے۔ یہ حکمرانوں کا کام ہے کہ بہترین سفیر چنیں لیکن جب چُن لیا تو دورانِ سفارتکاری اسکی عزت لازم ہے خواہ وہ حسین حقانی ہو یا ملیحہ لودھی؛ اسی طرح ائرپورٹ پر وزرا پر آوازیں کسنا، ہمیں ہی رسوا کرتا ہے۔ یہ تماشے اپنے مُلک میں ہی رہنے دیں!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-