“اپنا” ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈسنٹ آف نارتھ امریکا، کا سالانہ کنونشن آج سے ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں شروع ہوا ہے۔ بائیس ہزار سے زائد پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی یہ تنظیم محض امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پوری بین الاقوامی دنیا میں پاکستانیوں کی سب سے بڑی، سب سے منظم اور سب سے بااثر تنظیم ہے۔ لگ بھگ بیالیس سال پہلے چند ڈاکٹروں نے سماجی میل جول کے لئے جس تنظیم کی بنیاد رکھی، آج وہ طبی، ثقافتی، سماجی، فلاحی کاموں میں مقبول ترین اور اسکے ممبران ذاتی حیثیت میں سیاسی طور ہر کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔
اس تنظیم کا سب سے اہم کام سماجی اور فلاحی خدمات ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ ظفر، ڈاکٹر شاہد شیخ، ڈاکٹر نعیم خان اور ڈاکٹر احمد سعید خان جیسے سونے کا دل رکھنے والے انسان پاکستان میں بچیوں کے لئے جہیز سے لیکر، سوات کے اسکولوں کے بچوں کی تعلیم کے لئے ہر سال خطیر رقم اکھٹی کرکے بھیجتے ہیں۔ ہر سال جدید طبی آلات سے بھرے تین ٹرک سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کو بھیجتے ہیں۔ ایک سو سے زائد “کار نیا ٹرانسپلانٹ” کرکے نابیناؤں کو بینائی کی نعمت سے نوازنے کیلئے کام ہوا۔ کٹے ہوئے ہونٹوں اور تالو کے مفت آپریشن ہوئے۔ہر ایک میڈیکل کالج کی ایلو منائی نے اتنا کام کیا کہ نشتر ہسپتال ملتان سے لیکر اندرونِ سندھ، خیبر پختونخواہ اور لاہور سے گجرات تک کے ہسپتالوں میں ناصرف آلات بلکہ امریکہ سے ڈاکٹر ٹریننگ کے لئے گئے۔ محض نشتر ہسپتال میں ہی اس تقریباً بیس کروڑ کے لگ بھگ خرچ کرنے کا منصوبہ تیار ہے جس میں سے پانچ کروڑ جمع کئے جاچکے ہیں۔ جواں سال ڈاکٹر صادق نوید اس مقصد کے لئے دل و جان سے فنڈ ریزنگ کررہا ہے اور اسکی حوصلہ افزائی ہماری پوری نشتر ایلو منائی کررہی ہے۔ امریکہ میں ہمارے ہی شہر کولمبس کا ڈاکٹر مہدی قمر، غریب مریضوں کا علاج کرنے پاکستان گیا اور اپنے بچوں کے سامنے تفرقہ بازی کی گولی کا شکار ہوا لیکن ہمارے نڈر ڈاکٹروں نے ہمت نہ ہاری اور اپنا مشن جاری رکھا۔ نشتر میڈیکل کالج سے تعلق رکھنے والے “اپنا” کے ایک گمنام ڈاکٹر نے دس کروڑ روپے کا چندہ دیا تاکہ ایک بھی میڈیکل اسٹوڈنٹ تعلیم سے محروم نہ رہے اور ڈاکٹر غلام قادر نے اس ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں موبائل کلینکس، ٹیلی میڈیسن اور گلوبل ہیلتھ سمٹ کا انعقاد ہوا ہے۔ ڈاکٹر سمیر شفیع اور ڈاکٹر غلام مجتبےٰ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے خلاف جنگ میں صف اوّل میں موجود ہیں۔
کسی زمانے میں امریکہ میں ڈاکٹری کا امتحان صرف امیروں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ راقم نے “اپنا” کے صدر ڈاکٹر نصر قریشی کی مدد سے 2015 میں قرض پروگرام شروع کیا جس کے بعد اب غریب سے غریب ڈاکٹر یہ امتحان دے سکتا ہے۔ محض اس سال 114 میں سے 6 ڈاکٹر اس قرض پروگرام کی برکت سے امریکہ آسکے۔ یہ “قرضِ ہنسنا” نہیں ہے کہ کوئی کھا پی کر ہنس کر دکھا دے۔ ہمارا قرضوں کا ریٹرن سو فیصد ہے۔ آج تک صرف ایک “پٹواری ڈاکٹر” نے قرض کا روپیہ واپس نہیں کیا؛ اب وہ سو پیاز اور سو جوتے کے مصداق قرض بھی واپس کرے گا اور قانونی کاروائی کی فیس بھی۔ اسی طرح امریکہ میں امیگریشن کے بدلتے ہوئے برے حالات کے باوجود اس سال 114 ڈاکٹر جو امریکہ میں ٹریننگ کے لئے منتخب ہوئے، ان میں سے سب کے ویزے جاری ہوگئے اور محض چار ڈاکٹروں کے ویزے پھنسے ہوئے ہیں اور ان ہر بھی کام ہورہا ہے۔ اس عظیم کارکردگی کا کریڈٹ “ایڈووکیسی کمیٹی” کو جاتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنا کے صدر اقبال ظفر حمید کو بھی جنھوں نے مکمل مدد کی اور ہر طرح کی سہولت مہیا کی۔ ڈاکٹر بلال حمید اور سابقہ صدر ڈاکٹر مبشر رانا نے “ایڈووکیسی کمیٹی” کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی کھلے دل سے مدد کی۔
چند دنوں سے اخبارات میں “اپنا” کے حوالے سے بے بنیاد خبریں آرہی ہیں۔ جھگڑے اور مقدمے بازی تو دو سگے بھائیوں میں بھی ہوجاتی ہے تو کیا اس سے انکی اچھائی کم ہوجاتی ہے؟ “اپنا” کی خوش قسمتی کہ بڑے اچھے اور عظیم لوگ اسکا حصہ بنے لگے حالیہ مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ چند نااہلوں کا آگے آنا ہے۔ “اپنا” ایک فلاحی تنظیم ہے جسے امریکہ میں 501c3 اسٹیٹس حاصل ہے۔ یہ ایک اتنا بڑا اسٹیٹس ہے کہ جتنی بھی رقم بطور چندہ دی جائے اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ تو کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ “اپنا” کی قیادت میں چند ایسے لوگ بھی شامل رہے ہیں اور ہونے کیلئے کوشاں ہیں جنھوں نے کبھی اپنی جیب سے کوئی چندہ نہیں دیا لیکن اپنی تقریروں میں درد اور آنکھوں میں آنسو لاکر قوم کے لئے درد بیان کرتے ہیں۔ اگر ایک فلاحی تنظیم کے افسران (یا متوقع افسران) ہی چندہ نہیں دیں گے تو فلاح و بہبود کیلئے کیا طلسم ہوشربا سے بادشاہ افراسیاب اپنا خزانہ لیکر آئے گا؟ چندہ نہ دینے والوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ چند میٹھے اور بھلے انسانوں کو “اموشنلی بلیک میل” کرکے ان سے فنڈز نکلواتے ہیں۔ جب ان افسران (یا افسران بننے کے خواہشمندان) سے پوچھا جائے کہ “میاں آپ نے آرگنائزیشن کو اپنی جیب سے کیا دیا ہے؟” تو وہ اسکا جواب دینے کی بجائے اپنی “خدمات” گنوانے لگ جاتے ہیں اور وہ “خدمات” بھی پاکستان کے موسم کے حال کی طرح ہوتی ہیں ؛ “کہیں کہیں ہلکی بارش”، “کہیں کہیں دھوپ”اور “کہیں کہیں کچھ بھی نہیں”۔چلیں اگر کوئی غریب ہو تو مان لیا کہ چندہ نہیں دے سکتے، لیکن پاکستانی ڈاکٹر خطیر رقم کماتے ہیں اور “اپنا” کی الیکشن مہم کے دوران ہر سال تیس ہزار سے لیکر ایک لاکھ ڈالر فی کس خرچ کرتے ہیں تو کم ازکم پورے “اپنا” کیرئیر میں پانچ دس ہزار ڈالر ہی چندہ دے دیں۔ جب اپنی حق حلال کی کمائی تنظیم میں جائے گی تو “افسر” بننے کے بعد تنظیم کا پیسہ حماقتوں پر ضائع کرتے ہوئے دل بھی دکھے گا ورنہ تو “مالِ مُفت دلِ بے رحم”۔
اسکے بعد آتا ہے ایک اور الزام جو کہ “اپنا” کے کنونشن پر اکثر لگتا ہے کہ یہ ناچ گانے اور کھابہ گیری کا اجتماع ہے؛ تو عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے, خواتین کی تنظیم “وپنا” ڈاکٹر رابعہ ملک کی قیادت میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم اور بھلائی کے لئے پروگرام اسی کنونشن میں کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے؛ “سوشل فورم” پر زینب اور دوسرے بچوں کے ساتھ زیادتی کے روک تھام پر اہم پروگرام کنونشن کا حصہ ہے،ڈاکٹر اقبال ظفر حمید کا خواب، “اپنا یونیورسٹی” کو اگلے مرحلے میں لیکر جایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر داؤد ناصر کی ٹیم دن رات محنت کررہی ہے اور سب سے بڑھ کر امریکہ میں ہماری قوم کو تربیت دی جائے گی کہ کیوں اور کیسے سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ اس سیاسی تربیت میں امریکہ میں دو پاکستانی مئیرز اور دیگر سیاسی ماہرین تربیت دیں گے ۔ پاکستان کے امریکہ میں سفیر اس سیاسی ورکشاپ صدارت کریں گے اور یہ سیاسی تربیت کی ورکشاپ، سات جولائی، ہفتے کو ساڑھے بارہ بجے ٹوپاز روم (Topaz Room) میں ہوگی۔ اب یہ حاضرین پر منحصر ہے کہ ہلے گلے کا رخ کرتے ہیں یا کچھ سیکھنے سکھانے کا۔ “اپنا” بہتری کی طرف گامزن ہے اور ہم سب ملکر اسے بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں لیکن اگر ہم باتیں کم کریں اور کام زیادہ۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔