مقبوضہ کشمیر کے علاقے اودھم پور کے مندر کے پروہت سنجی رام نے اپنے بھتیجے سے کہا، “فصل پک چُکی ہے، چلو کاٹیں” اور رسانہ کے کھیتوں میں قلانچیں بھرتی، گھوڑے چراتی ننھی سی کلی آصفہ ان جانوروں کے ہاتھ چڑھ گئی۔ دیواستھان یعنی چھوٹا مندر, جہاں ہندو منتیں اور امن مانگنے آتے ہیں، سنجی رام اور دوسرے جانوروں نے وہاں صرف بچی کا ہی ریپ نہیں کیا بلکہ اپنے مذہب اور مندر کا بھی اجتماعی بلاتکار کیا اور محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے۔ چار دن تک بھوکی پیاسی، نشے میں اتاری بچی کی بےحرمتی کے بعد جب اسکا گلا گھونٹنے لگے تو اسپیشل پولیس آفیسر دیپک کھجوریا نے اس مرتی سسکتی روح کو مارنے سے روکا؛ لیکن بچانے کے لیے نہیں مرنے سے پہلے اپنی “باری لگانے” کے لیے اور اسکے بعد گلا گھونٹنے کے بعد سر کُچلا گیا تاکہ کوئی کسر ناں رہ جائے۔ اس بچی کی ماں آج تک اس درد میں ڈوبے چہرے اور اُبلی آنکھوں کو دیکھ کر دھاڑیں مار رہی ہیں اور کوئی ماں یا باپ ایسے ہے ہی نہیں جن کی سسکیاں نہ نکل گئی ہوں۔ ابھی ہم زینب کو رو کر ہٹے نہیں تھے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کوئی ماں باپ کی جان، پھول سی بچی بھنبھوڑی نہیں جاتی۔ کل پشاور میں ہڑتال تھی تو آج کراچی میں کہرام۔ دلی سے مقبوضہ کشمیر تک کوئی ایسا علاقہ نہیں جو محفوظ ہو۔ تو کیا آصفہ کے ساتھ یہ بھیانک کھیل محض زمین کا تھا؟ کیا زمین کے لیے کوئی ایسے جانور بن سکتا ہے یا جانور اپنی حرص مٹانے کے ساتھ ساتھ زمین کے خواہشمند تھے؟ کیا یہ دن بہ دن بڑھتی جنسی درندگی بذات خود ایک ناسور نہیں؟ کیا یہ جنسی درندگی خودبخود بڑھی ہے یا چند عناصر نے چند روپے کمانے کے لیے اس بڑھایا ہے؟
راج کپور ایک کامیاب اداکار تھا لیکن کبھی بھی دلیپ کمار نہ بن سکا۔ جب اداکاری سے پروڈکشن اور ہدایتکاری میں آیا تو اسنے کبھی نہ مل سکنے والے اسٹارڈم کو برہنگی میں ڈھونڈنا شروع کیا؛ ساغر کی ڈمپل کپاڈیہ ہو یا رام تیری گنگا میلی کی منداکنی؛ شائقین نے وہ سین دیکھے جو ہالی ووڈ میں بھی کم تھے اور یہاں سے زینت امان اور پروین بابی تک بات پہنچی۔ ابھی تک بات بگڑی نہیں تھی کیونکہ وی سی آر صرف گنتی کے امیروں کے پاس تھا؛ غریب بار بار ہوشربا سین دیکھ نہ سکتے کیونکہ کیمرہ اور تصویر تک مہنگی تھی اور بار بار دیکھنے کو سنیما کی ٹکٹ بھی۔ تو یہ دل پشاوری تھوڑی دیر کے لیے ہوتی؛ فلم کے بعد بیگم کو چنبیلی کا بازوبند یا جوڑا لے کر دیکر اسی میں سے زینت امان نکالنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن مردانہ حیوانیت ہمیشہ اپنی من چاہی اداکاراؤں کو کپڑوں کی قید سے آزاد دیکھنے کی شائق تھی تاہم اس وقت تک صورتحال یہ تھی In your dreams!!!
نوے کی دہائی کے اختتام پر جب انٹرنیٹ بڑے بڑے سی ای اوز کے دفاتر سے نکل کر پندرہ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے گلی کوچوں میں آیا تو ننانوے فیصد آبادی صرف ایک کام کے لیے انٹرنیٹ کیفوں میں پائی جاتی اور وہاں سے واپسی جب ہوتی جب جیب، جسم اور دماغ خالی ہوجاتے؛ “قومی شوق” کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دنوں “دیسی بابا” اور “دیسی ماما” کے نام سے ویب سائٹس، آج کی فیس بُک سے زیادہ مشہور ہوئیں کیونکہ ان میں دہائیوں پرائی “فینٹیسی” کو حقیقی روپ میں لانے کے لیے برہنہ فلموں کی اداکاراؤں کے جسموں پر مدھو بالا سے لیکر مادھوری تک کے چہرے لگا دئیے گیے تھے۔ جنھیں آج کے دور میں بھی ملالہ کی گولی کی پٹی مشرق سے مغرب ہوتی نظر آتی ہے، بیس سال پہلے جب انھیں بتایا جاتا کہ یہ تصاویر فیک ہیں تو وہ اپنے پندرہ روپے فی گھنٹے میں سے مکمل خراج وصول کرنے کی “وحشت” کے “درمیان” کہتے “اچھا، تم مُنہ بند کرو”!!! آہستہ آہستہ ان جعلی تصویروں سے دل بھر گیا تو لعنت ہو اس پر جو چند لاکھ کمانے کے لیے سنی لیون جیسی برہنہ فلموں کی اداکارہ کو بگ باس میں لے آیا۔ اس سے پہلے اس قسم کی فلمیں تولیے میں لپیٹ کر لائی جاتی تھیں، بُرائی کے شوق کے باوجود بُرائی سمجھی جاتی تھی۔ سوائے ایک آدھ فیصد گھروں کے، پورے ملک میں ایسے لوگوں کا نام تک لینے پر ممانعت تھی لیکن چند سالوں میں ہی جھجھک بھاپ بن کر اُڑ گئی۔ اس قماش کی خواتین نے چاہنے والوں کو اپنی ویب سائٹس پر وہ سب دکھایا جو only in your dreams تھا۔اگر آپ انڈیا میں ریپ کا گراف دیکھیں تو ان فلموں اور برہنہ اداکاراؤں کے بعد تیزی سے بڑھا ہے۔ آج غریب کی پہنچ بھی انٹرنیٹ تک ہے،فون تک ہے، کیمرے تک ہے لیکن بھڑکے ہوئے خوابوں کی تکمیل آج بھی محض دولتمندوں کے پاس ہے۔ یہ جلوے مندر کے پروہت یا کانسٹیبل کی اوقات اور جیب کے نہیں ہیں؛ اسی لیے انھیں تو مرتے ہوئے آخری سانس لیتے ہوئے بچی میں سے بھی حیوانیت کی تسکین چاہیے۔ علاقے میں دہشت پھیلانے کے لیے تو اغوا اور قتل ہی کافی تھا۔ شبانہ اعظمی کہتی ہے جب نیم برہنہ کرینہ کپور کہے گی “میں تو تندوری مرغی ہوں یار غٹکا لے مجھے الکوحل سے” سے تو درندوں کے ہاتھ یہ ننھی بچیاں ہی ہاتھ لگیں گی۔ جوان عورت کا اغوا ذرا مشکل ہے اور سنجی رام کی صحت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جوان عورت کی ایک چماٹ اسکے کپڑوں میں بول بزار کروا سکتی ہے۔انڈیا کی جنسی حیوانیت کا اثر آپ انگلینڈ سے امریکہ تک کی ٹورازم ویب سائٹس پر دیکھ سکتے ہیں جہاں “ریپ کنٹری” کی تنبیہ موجود ہے۔
انڈیا کی فلموں کا اٹر پاکستان پر یکساں ہوتا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ پر فلٹریشن ہے لیکن نامکمل ہے، مثلاً آپ کچھ بھی اخلاق باختہ کھولنا چاہتے ہیں تو لنک نہیں کھلے گا لیکن image پر کلک کرکے سب کچھ نظر آ جائیگا۔ اب وٹس ایپ پر بھی یہ سب ٹرانسفر ہو رہا ہے۔ بالخصوص اٹھارہ سال سے کم عمر کو ان سے دور رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ زینب کے قاتل سے لیکر آصفہ کے قاتلوں میں کم عمر بھی شامل ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی غریب کی بھوک دن رات بڑھائی جائے لیکن کھانے کے لیے کچھ نہ ہو۔ تو یہ “بھوک” سب کے لیے ہیں لیکن “تسکین” صرف امیروں کے لیے۔ اسی لیے نوے فیصد کیسوں میں غریب شامل ہیں۔ زینب کے قتل پر کالم میں لکھا گیا تھا کہ اس سے نفسیاتی درندوں کو تقویت ملے گی اور آج آپ دیکھ لیں، کیا بچوں پر حملے بڑھے ہیں کہ نہیں؟ اسی لئے انڈیا کے ہندو بھی سڑکوں پر ہیں کیونکہ آصفہ اور دیپکا میں کوئی فرق نہیں ان جانوروں کے لیے۔ اپنے بچوں کو محفوظ رکھیں کہ جانور کھل گئے ہیں۔ ننھے سے بچے ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہے ہیں،بس کردو اب بس”
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔