شمع کا تعلق جامشورو سے تھا۔ ایک لڑکے انیس کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔ ٹیکسٹوں اور تصویروں کے تبادلے ہوئے۔ ایک دن انیس نے “لڑکی پھنسانے” کی ڈینگ مارتے ہوئے سیل پر تصویریں دوست کو دکھائیں۔ دوست نے چالاکی سے تصویریں خود کو فارورڈ کرلیں اور شمع کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ شمع کو ڈر تھا کہ بھائیوں کو پتا چلے گا تو مار دیں گے۔ منت سماجت کرتی رہی۔ بلیک میلر نے کہا کہ آکر ملو تمھارے سامنے تصویریں ڈیلیٹ کردوں گا۔ ملنے گئی تو دوستوں کے ساتھ ملکر ریپ کیا اور ویڈیو بنا لی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کے شمع نے اپنے گلے میں رسی ڈال کر خود کشی کرلی۔
میرے فیس بک پیج “تیز ہے نوکِ قلم”کے ستر ہزار سے زائد فالورز ہیں اور دو سال سے رابطے میں ہوں لیکن پچھلے دو کالمز کے رسپانس میں اتنے میسیجز آئے ہیں کہ میں پانچ یا دس فیصد بھی نہیں پڑھ سکا۔ اور شمع کی کہانی ان میں سے ایک ہے جو کہ اسکی بہن نے بھیجی ہے۔ یہ کیس پچھلے سال رپورٹ بھی ہوا تھا اور اخباروں کی زینت بنا تھا۔ بلیک میلنگ کا شکار زیادہ تر خواتین یا متمول طبقہ بالخصوص ڈاکٹرز ہیں۔ چند ایک نے تو کمنٹس میں اپنی آپ بیتی کا ذکر کیا لیکن میں پڑھ کر حیران رہ گیا کہ “آئس لینڈ” تک میں پاکستانی “پاتال جونکی” موجود ہے۔ لندن، مانچسٹر، ٹورنٹو، عرب امارات اور نجانے کہاں کہاں کہاں سے لیکر ہمارے اپنے نشتر ہسپتال تک میں چند بلیک میلر رپورٹرز نے تنگ کیا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں ان متاثرین کے واقعات میں ایک بات مشترکہ تھی؛ وہ یہ کہ انھوں نے بلیک میلر کی پہلی ضرب یا پہلی کاروائی کو نظر انداز کیا؛ مثلاً کسی ڈاکٹر نے سو پونڈ اچکائے جانے پر آواز بلند نہیں کی تو اسے بعد میں پانچ ہزار پونڈ کی “سٹ” پڑی؛ کسی لڑکی نے دست درازی کی شکایت نہیں کی تو وہ بدنصیب ریپ ہوئی؛ کسی سے چھوٹی سی غلطی ہوئی اور اس نے بلیک میلر کی منت سماجت کی “کسی کو نہ بتانا” تو پھر سالہا سال وہ بڑی غلطیوں پر مجبور کیا گیا/گئی!
ذرا سوچیں کہ اگر پہلی کال پر ہی شمع اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لے لیتی تو ہو سکتا ہے، تعلیم روک دی جاتی، جھڑکیاں پڑتیں یا پٹائی ہوجاتی، ان پڑھ کزن سے زبردستی شادی ہوجاتی لیکن وہ نہ پھانسی لیکر مرتی اور نہ مرنے سے پہلے روز تل تل مرتی۔ ایک اور عجیب بات، معکوس تناسب ہے یعنی کہ ؛ ان میں جتنا کوئی کم قصوروار تھا اسے اتنی ہی زیادہ سزا ملی؛ مثلاً صائمہ نے اکرم کی محبت قبول کرنے سے انکار کردیا؛ ناکام عاشق نے صائمہ کے ٹیچر سے افیئر افواہ اڑا کر تعلیم بھی چھڑوا دی اور منگنی بھی تڑوا دی۔ جبکہ جنکا واقعی تھوڑا بہت قصور یا گناہ تھا انھوں نے کچھ دے دلا کر کچھ وکیلوں کو ملا کر اندر کھاتے گلوخلاصی کروا لی۔
بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر عمل کی جزا اور سزا ہے۔ ہرانسان سے غلطی ہوتی ہے اور زیادہ چانس ہے کہ غلطی پر وارننگ یا معمولی سی سزا مل جائے۔ آپ ایک منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے سوچیں تو آپ شاید ہی اپنی زندگی میں اپنی کوئی ایسی خطا ڈھونڈ سکیں جس کی قانونی طور پر کوئی بڑی سزا ہو۔ ہوسکتا ہے آپ نے اپنے ماحول کے مطابق کوئی اخلاقی، مذہبی یا سماجی برائی کی ہو لیکن عموماً ان میں بھی معافی تلافی ہو جاتی ہے۔ مثلاً شمع کا تصویریں یا ٹیکسٹ بھیجنا غلطی نہ ہوتا اگر وہ ڈیفنس کراچی میں رہ رہی ہوتی؛ بتول کا شراب پینا، رشید کا جوا کھیلنا اور دانش کا ہم جنس پرست ہونا قابل بلیک میلنگ “جرم” نہ ہوتے اگر وہ سوسائٹی کے لبرل اور ماڈرن حصے میں رہ رہے ہوتے۔لیکن اپنے علاقے کے حساب سے اور بدنامی کے ڈر سے وہ بلیک میل ہوتے رہے۔ بیرون ممالک لوگ مشہور ہونے کے جال میں پھنس کر یا افواہ اور پروپیگنڈے کے ڈر سے بلیک میل ہوئے۔ بلیک میلر کے لئے سب سے بڑی موت ہوتی ہے جب اسے جواب میں کہا جائے؛ ،”جا جس کو دل کرتا ہے جاکے بتا دے” یا یہ کہ “جا پولیس میں رپورٹ کردے”۔
گزشتہ دو کالموں نے پاکستانی امریکیوں کے شرافت یا ڈر کے مارے بندھے دل کھول دئیے ہیں۔بالخصوص نیویارک سے فون اور ٹیکسٹوں کا سلسلہ بندھا ہوا ہے۔ نیویارکرز شکر ادا کر رہے ہیں کہ کوئی تو اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ایک بزرگ نے تقریباً روتے ہوئے بتایا کہ بلیک میلنگ کا یہی سلسلہ پچیس سال پہلے ملیحہ لودھی کو کھا چکا ہے جب وہ 1994 میں سفیر تھیں اور “یہی بلیک میلر” ان سے بھتہ مانگنے گیا۔ ڈالرز نہیں ملے تو اگلے دن کے اخبار کی ہیڈ لائن تھی
“ملیحہ لودھی کو ایڈز ہوگئی”!!!!
بیچاری نے مجبوراً رقم دی تو اسکی ایڈز “ختم ہوئی”! خدا کی لاٹھی ایسی بے آواز ہے کہ با کرداروں پر بدکرداری کا الزام لگانے والا والا وہ اخبار ہی بند ہوگیا اور پینسٹھ سالہ انسان، بارہ سالہ بچے کی طرح وٹس ایپ پر پیغامات کی اجڑی صحافت کررہا ہے۔ پاکستان نیوز کے مالک مجیب لودھی نے ملیحہ لودھی کے واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ “اپنا” کا ہر ڈاکٹر چوکنا ہوگیا ہے۔ اب حامد میر اور سہیل وڑائچ کے نام پر ایڈوانس نہیں ملنے والا! ہمارے اپنے ڈاکٹروں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ اسکے الزامات سے لبریز وٹس ایپ کے جواب میں پریشان ہونے کی بجائے اسکی کلاس لے رہے ہیں؛ کمال دلیری سے کمنٹس میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور فون کرکے بھی میرا حوصلہ بڑھایایہ سب دوست قابل تحسین ہیں ۔ انکے ساتھ اور یقین کے بغیر میرا اکیلے ڈٹے رہنا مشکل ہوتا۔ سب دوستوں کی رائے ہے کہ کمیونٹی کی آگاہی کے بعد قانونی کاروائی بھی ہونی چاہیے اور اس رائے کا احترام ہوگا۔ سارے متاثرین اکھٹے ہورہے ہیں۔ اب اسکا ذکر کالم کی بجائے قانون کے کٹہرے میں ہوگا۔ جس نے جو بویا ہے اسے وہ کاٹنا پڑے گا۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-