تین اپریل 2018 ہماری تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ سعودی عرب کے پچاس سال تک بادشاہ رہنے کے خواہشمند نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا اور ہمدردی کا اظہار بھی اور اسی دن افغانستان میں ایک سو سے زائد حفاظ کرام امریکی طیاروں کی بمباری میں شہید ہوئے۔
کاز اینڈ ایفیکٹ ریلیشنشپ (وجہ اور اثر) تھیوری میں سفاکیت یہ ہے کہ “وجہ” چاہے صدیوں پر محیط ہو لیکن جب اسکا “اثر” سامنے آتا ہے تو وہ یکدم، غیر متوقع اور عموماً بھیانک ہوتا ہے۔ تین اپریل کی تاریخ اس سیاسی اور جنگی درندگی کا اثر ہے جس کی وجہ چار دہائیوں پر محیط ہے۔ سعودی عرب کا کردار گزشتہ نصف صدی میں مشکوک رہا ہے لیکن مقاماتِ مقدسہ اور نئی نئی امیری کی وجہ سے اسکے خلاف اسلامی ممالک میں آواز نہیں اٹھی جبکہ یورپ اور امریکہ سے مفادات کے رشتے خوب نبھائے گئے۔یونیورسٹی آف پینسیلوینا کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رابرٹ وٹالیس کی کتاب “امریکن کنگڈم” امریکہ اور سعودی عرب کے ستر سالہ تعلقات کا جائزہ لیتی ہے اور اس کے مطابق امریکہ کے دیگر اسلامی ممالک سے تعلقات تو بنتے بگڑتے رہے ہیں لیکن سعودی عرب نے ہر قیمت پر تعلقات بہتر رکھے ہیں چاہے تیل کمپنی آرمکو میں سے بھی حصہ دینا پڑا۔ “تل ابیب سے یروشلم تک” کے نام سے ۱۳ دسمبر ۲۰۱۷ کو لکھے گئے میرے کالم میں سمیعہ نخول کا آرٹیکل کا حوالہ دیا گیا تھا جس کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان، فلسطین کے صدرمحمود عباس پر امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کو تسلیم کرنے پر زور دے رہا تھا لیکن اب بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ وہابیت کے اثرورسوخ کی مدد سے جہاد کے پھیلاؤ کے اقرار سے لیکر اب اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے چالیس سالہ “کاز اینڈ ایفیکٹ ریلیشنشپ” میں پوری امت مسلمہ بالخصوص افغانستان، ایران، عراق، لیبیا، یمن، مصر اور شام کی تباہی ہوگئی۔ وہابیت نے شیعہ بھائیوں پر یہودیوں کو فوقیت دے دی۔ عرب سپرنگ (عرب بہار) پورے خطے کے مسلمان ممالک کھا گیا لیکن امریکہ نے سعودی عرب کو بچا لیا اور بدلے میں مال ہتھیا لیا۔ یہ ہے وہ ڈپلومیسی جو مسلم ممالک کو سعودی عرب سے سیکھنی چاہیے۔
دوسری جانب، امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد 2004 میں وجود میں آئی حکومت کے صدر حامد کرزائی سے لیکر اشرف غنی تک سارے صدور امریکہ کے وفادار اور پاکستان پر زبانی حملے کرتے رہے۔ کبھی افغان طالبان سے گفت و شنید کا آغاز کیا جاتا اور جونہی امن کی کرن نظر آتی، ڈرون حملے ہوجاتے؛ لیکن کل تو حد ہی ہوگئی، کلامِ پاک پڑھتے بچے زندہ بھون دئیے گئے۔ ہوسکے تو اسکا الزام بھی پاکستان پر لگادیں! دس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے ہمارے ملک میں پناہ لیکر دہشتگردی اور ہیروئن پھیلا دی لیکن افغانستان پیار کی پتنگیں بھارت کے ساتھ بڑھا رہا ہے۔ اسلام کے نام ہر شروع ہونے والے اس جہاد کے سرخیل اسلامی ممالک کے دشمن لیکن اسرائیل اور بھارت کی آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں۔
شاید یہ آج کی تباہی مستقبل کی آگاہی بن جائے! عرب دنیا کی آنکھیں کھل جائیں گی اور افغانستان میں بھی دوست نما دشمن کی پہچان ہوجائے گی۔ لیکن اس پہچان کے بعد بہترین پالیسیوں پر عمل کی ضرورت ہے۔ کاز اینڈ ایفیکٹ ریلیشنشپ (وجہ اور اثر) تھیوری کی رو سے آج کی بہترین پالیسیاں دہائیوں میں پھل لائیں گی لیکن شروعات تو ہو۔ مبینہ طور پر روس کی مدد سے جیتا ٹرمپ، کسی کا تاج مار کر بادشاہ بننے والا محمد بن سلمان اور کرپشن کے الزامات کا سامنہ کرتا نیتن یاہو؛ تینوں ملکر کرپٹ گینگ بنا رہے ہیں، جہاد کے نام پر بیوقوف بننے والوں کو بھی کوئی عقل سے کام کرنے والا گینگ بنانے کی ضرورت ہے ورنہ انتظار کریں مزید حیرتوں سے پیوستہ تباہی کا؛ مزید تین اپریلوں کا!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔