(دوسری قسط) پاتال جونکی; ایک بلیک میلر

نوٹ! گزشتہ چند دونوں میں انباکس بیسیوں میسیجز سے بھر گیا۔ “پاتال جونکی” کے ایسے ایسے کارنامے منظرعام پر آئے کہ میں خود ششدر رہ گیا۔ جہاں ممکن ہوا متاثرہ لوگوں کی اجازت سے ریفرینس بھی دیا جائے گا۔

یہ بات لگ بھگ ایک دہائی قبل کی ہے۔ ارشد اور عاطف (نام تبدیل کئے گئے ہیں) نے نیویارک میں لیبارٹری کا کام شروع کیا۔ کام چل پڑا اور دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ایک دن “پاتال” کی نظر خوش لباس عاطف پر پڑی جو ایس کلاس مرسیڈیز سے نکل رہا تھا۔ دیسی اور امیر؛ “پاتال” کی “مرغوب غذا” سامنے تھی۔ سُن گُن لیتا ہوا “پاتال” ان دونوں کی لیبارٹری تک پہنچ گیا اور ان کی کامیابی سے متاثر نظر آتے ہوئے انکی شان میں زمین آسمان ایک کر دئیے۔ “پاتال” نے کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو پتا ہونا چاہئیے کہ ایسے “انمول رتن” امریکہ میں ہیں اسلئے وہ انکا انٹرویو چھاپے گا۔ ہم دیسیوں میں مشہور ہونے کی خواہش ویسے ہی ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہے۔ ان دنوں نہ تو ایسے چینلز کی بھرمار تھی اور نہ ہی فیس بک مشہور ہوئی تھی۔ ارشد اور عاطف فوراً رضامند ہوگئے۔ “پاتال”نے “خودی”اور “بے غرضی” کی انتہا کرتے ہوئے انٹرویو کیلئے ایک بھی ڈالر لینے سے انکار کردیا اور یہ بات ارشد اور عاطف کے دل میں اتر گئی اور وہ ان دونوں کے قریب آگیا۔ اب گفتگو کے دوران “پاتال “گوروں کو بےوقوف ثابت کرتا اور بتاتا کیسے نام بدل بدل کر وہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرتا رہا،پےمنٹ کے بغیر اور یہ کہ لوگ سو ڈالر میں جو کال پاکستان کرتے ہیں وہ چند سینٹ میں کر لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ارشد اور عاطف کو لگا کہ وہ “کم اسمارٹ” لگ رہے ہیں تو انھوں نے بھی “فنکار” بنتے ہوئے بتایا کہ بعض اوقات وہ آٹھ پینل کا ٹیسٹ کرتے ہیں اور سترہ پینل بل کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ مریضوں کے مرنے کے بعد بھی انشورنس سے انکے پیسے وصول کرتے رہتے ہیں۔ پاتال ان کو داد دیکر دانت نکالتا ہوا چلا گیا۔

تین دن کے بعد ارشد اور عاطف کو ایک فون آیا اور کسی نوجوان نے غصے سے کہا، “ تم میرے باپ کے مرنے کے بعد بھی انشورنس کو بل کررہے ہو”۔ عاطف نے باپ کا نام پوچھا تو اس نے غصے سے کہا کہ یہ تو وہ “حساس ادارے” کو بتائے گا۔ ارشد اور عاطف کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اگلے دن اسی طرح کے دو تین فون اور آئے۔ اس سے اگلے دن “پاتال” لیبارٹری آیا تو پریشان نظر آرہا تھا۔ اس نے دونوں کو بتایا کہ اسے بھی فون کالز آرہی ہیں اور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ لیبارٹری میں پارٹنر ہے۔ یہ کہتے ہوئے “پاتال” نے رونا شروع کردیا اور کہا، “تم لوگوں کے پاس تو اتنا پیسہ ہے کہ جیل میں چلے جاؤ تو بھی گھر والے چین سے کھائیں گے، میں تو روز تازہ کمانے والا ہوں تو مجھے تو مجبوراً وعدہ معاف گواہ بننا پڑے گا”۔ یہ سن کر ارشد اور عاطف کے اوسان خطا ہوگئے اور انھوں نے پاتال کو پچاس ہزار ڈالر دے دئیے تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھے۔ یہ دینے دلانے کا سلسلہ ارشد اور عاطف کی مکمل بربادی تک چلتا رہا۔ اور انکی لیبارٹری بند ہونے اور سزا ہونے تک “پاتال” جونک کی طرح انھیں چُوستا رہا۔ مشہور ہونے کی خواہش انھیں “پاتال” کے ہاتھوں پاتال تک لے گئی۔

مزے کی بات ہے کہ اگر آپ پاتال کی گزشتہ ماہ اور رواں ماہ کی وٹس ایپ پر “اخباری” پوسٹ دیکھیں تو وہ نارتھ کیرولینا میں ایک لیبارٹری کے مالک ڈاکٹر اور ٹیکساس میں ہیلتھ کئیر بزنس کے مالک کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہے۔ انھیں “ایماندار”، “خدا ترس”، “نیک دل” اور “لیڈر” قرار دے رہا ہے۔ مشتری ہوشیار باش!!!!
ع: پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں “مقصود” ہے

ان باکس میں مزید ملنے والی اطلاعات کے مطابق،

“پاتال” وٹس ایپ پر اس لئے میسیج کررہا ہے کیونکہ اسکا آدھ صفحے کا بلیک میلر اخبار، فراڈ اور بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بند ہوچکا ہے۔

“پاتال” نے جیو نیوز کے ستر ہزار ڈالر مارے ہوئے ہیں، جیو نے نادہندگی کا کیس کر رکھا ہے، جیو کے عظیم احمد خان مزید تفصیلات بتا سکتے ہیں۔

“پاکستان نیوز” کے دلیر پبلشر مجیب لودھی نے ”پاتال” کی جیکسن ہائیٹس میں پٹائی کی کیونکہ اس نے ہیوسٹن کی ایک لڑکی کو ہراساں اور بلیک میل کیا تھا۔ پولیس رپورٹ بھی ہوئی تھی۔

“نیکسٹ ٹی وی “کے مالک عمر جان کے “پاتال” نے تین ہزار ڈالر دینے ہیں۔

نیویارک کے ایک مسلمان ڈاکٹر کے قادیانی ہونے افواہ اڑا کر اور پیچھے گھر والوں کی جان کا خوف پیدا کرکے اس سے خطیر رقم وصول کی۔(ڈاکٹر کی حفاظت کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس نے یہ نہیں بتایا بلکہ دیگر ذرائع سے پتا چلا)-

مذکورہ بالا حضرات میری فرینڈز لسٹ میں ہیں۔ اگر تصدیق کرنی ہو تو ٹیکسٹ پر رابطہ کرلیں!!!دیگر حضرات ابھی نام صیغہ راز میں رکھنا چاہتے ہیں مگر عدالت میں گواہی دیں گے۔

سال رواں کے آغاز سے ہی پاتال نے “اپنا” کے صدر سے لیکر ایگزیکٹو کمیٹی کی ناک میں دم کئے رکھا۔ ہر وٹس ایپ پوسٹ میں نام لیکر الزام لگانا۔ اکتیس اکتوبر کی پوسٹ ہی دیکھ لیں؛ سب کا نام لیکر بدتمیزی۔ لیکن میرے گزشتہ بدھ کو لکھے گئے کالم (پہلی قسط) کے بعد اسکی طبیعت ایسے صاف ہوئی کہ ایک پھسپھسی سی “وٹس ایپ” پوسٹ آئی جس میں کسی کا بھی نام لے کر الزام لگانے کی ہمت نہ کرسکا اور “ڈاکٹر صاحب” “ڈاکٹر صاحبہ” لکھ کر وضاحتیں دیتا رہا۔ ہماری لیگل ٹیم کام کررہی ہے کہ کب یہ کسی کا نام لے کر الزام لگائے اور کب اسکی گردن میں قانون کا شکنجہ فٹ کریں۔ ان بلیک میلروں کے وجود میں بدمعاشی کی اکڑ ہمارے ڈر کی “ویاگرا”سے ہوتی ہے۔ اب جب ہم نے ڈرناختم کردیا، اور بلیک میلر کو گھسیٹ کر سوشل میڈیا کے چوراہے پر لے آئے تو اس کا پورا وجود مرے ہوئے چوہے کے جیسا ہوگیا ہے۔

“پاتال جونکی” سے کسی ایک فرد یا ڈاکٹر کا کوئی ذاتی مسئلہ ہوتا تو سوشل میڈیا پر لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ چند لوگ بیچ میں ڈالے جا سکتے تھے، وکلا چپکے سے نوٹس بھیج دیتے یا کچھ اور معاملہ کرلیتے؛ “پاتال” ایک استعارہ ہے بُرائی کا، بلیک میلنگ کا اور اسکا مقابلہ سرعام اسلئے کیا جارہا ہے تاکہ “اپنا” کے دوسرے ڈاکٹروں اور کمیونٹی کے افراد میں بھی مقابلے کی ہمت پیدا ہو۔ انسان کی عزت اتنی کمزور یا نازک نہیں ہوتی کہ محض الزام یا افواہ سے ختم ہوجائے۔ عزت جب گھٹتی ہے جب ہم غیر ضروری سمجھوتے کرتے ہیں۔ اگر آج ہم اور آپ ڈر گئے تو یہ ڈر ہم اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کر جائیں گے۔ ہمارے بچے ہمیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں تو آپ مجھے بتائیں کہ ہیرو جم کر مقابلہ کرتے ہیں یا پیٹھ دکھاتے ہیں ؟ اگر ہم اپنی ہی کمیونٹی کے ان “ حقیر پیراسائیٹ کیڑوں”سے ڈر گئے تو اس ملک میں گوروں سے کیسے مقابلہ کریں گے؟ شریف لوگوں کو ڈرانے کے لئے انھوں نے مشہور کیا ہے کہ “کیچڑ میں پتھر مارو تو چھینٹے خود پر پڑتے ہیں “لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر سو لوگ مل کر پتھر ماریں تو کیچڑ اڑنے سے پہلے ہی خشک ہو جائیگی، آزمائش شرط ہے۔

اس سال ہماری ایڈووکیسی کمیٹی نے سو فیصد ویزے(ایک سو چار ٹوٹل ویزے) منظور کروائے؛ جن بچوں کے پاس وسائل نہیں تھے انھیں قرضے دئیے؛ بچوں کو اپنے کلینکس پر ایکسٹرن شپ کروائی؛ تو ان سب کے بعد کیا انھیں یا اپنے بچوں کو ایسے ہی بلیک میلرز کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیں؟ ایسا نہیں ہوگا، ہرگز نہیں ہوگا! ان بلیک میلرز کو حتمی انجام تک پہنچائے بغیر یہ جنگ ختم نہیں ہوگی!

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی

ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *