ستیہ گرہ سنسکرت کا لفظ ہے ستیہ کے معنی “سچائی” کے ہیں اور “گرہ” کے معنی ڈٹے رہنے یا مستقل مزاجی کے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے 1906 میں جنوبی افریقہ میں مقیم ہندوؤں کو انکے حقوق دلوانے کے لئے وہاں کی حکومت کے خلاف غیر متشدد مزاحمت کی بنیاد ڈالی جسے ستیہ گرہ اور گاندھی کو “ستیہ گراہی” کا لقب دیا گیا۔ دسمبر 1920 میں گاندھی نے یہی “جُگاڑ” برطانوی حکومت کے خلاف لگانے کی کوشش کی اور سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کا علم بردار کرکے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلمانوں کو ساتھ ملا لیا۔ یہاں سے قائداعظم محمد علی جناح کے کانگریس اور گاندھی سے اختلافات شروع ہوئے کیونکہ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تحریک محض مسلمانوں کے استحصال کے لئے ہے اور کامیاب نہیں ہوگی بلکہ سیاسی عدم استحکام پھیلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اسکے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں خلیج بڑھی اور غیر متشدد تحریک سے اٹھنے والا طوفان “چوری چورا” میں پولیس کے سپاہیوں کو زندہ جلا کر اسے متشدد بنا گیا۔ یہاں سے قائداعظم نے کانگریس کو چھوڑ دیا۔ “بمبے کرونیکل”کے جنوری 1920 کے ایڈیشن کے مطابق، ستیہ گرہ تحریک نے محمد علی جناح کو ہمارے نجات دہندہ “قائداعظم” میں تبدیل کر دیا جنھوں نے کانگریس کو چھوڑ کرمسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ کے کے عزیز کے مطابق اس سے پہلے اٹھاسی مرتبہ انڈیا کی مسلمان اور ہندو علاقوں میں تقسیم کی بات چلی تھی لیکن ستیہ گرہ تحریک کے بعد اور قائداعظم کی رہنمائی میں اسکے بارے میں باقاعدہ سنجیدگی سے کام ہوا یہاں تک کہ ہمیں ہمارا ملک مل گیا،
ع، اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان
مادر وطن کے ہر بچے کو قائداعظم سے عشق بچپن سے ہی ہوجاتا ہے جب ان پر مضامین لکھے جاتے ہیں، تقریری مقابلے ہوتے ہیں، انکے احسان کے اعتراف میں ملی نغمے گائے جاتے ہیں لیکن جوں جوں آگاہی حاصل ہوتی ہے اور دماغ منطق اور دلائل کے ساتھ حقائق اور سچائی کی کھوج میں لگتا ہے، یہ “اندھا عشق”، عقلی محبت اور حیران کن مرعوبیت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمارے قائد کو مسلم لیگ میں شامل ہوئے ایک صدی ہونے کو آئی جبکہ اس دنیا سے گزرے ستر سال ہونے کو آئے اور اس دوران ہر چیز اور عمل میں جدیدیت آگئی لیکن قائداعظم آج بھی سو سال کی تاریخ میں مسلم لیگ اور ستر سال کی تاریخ کے پاکستان کے سب سے محنتی، ذہین، ایماندار، جدیدیت کے حامل اور ماڈرن لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ انکی تصاویر دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے۔ ایک بلند نظر مسلمان جسے اپنے ایمان کی گواہی کے لئے “میلادیں کروانے” کی ضرورت نہیں تھی؛ سوٹ میں ملبوس جاذب نظر شخصیت، کبھی کتوں کے ساتھ لاڈ کرتے تو کبھی سگار منہ میں لگائے بلیئرڈ کھیلتے؛ نہ دکھاوا نہ بناوٹ۔ایسا لیڈر جس پر اعتماد تھا کہ ملک کو تفرقہ بازی سے دور رکھ سکتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کا ضامن بن سکتا ہے۔
قائداعظم کے اسماعیلی فرقے سے بارہ امامی شیعہ ہونے کی تاریخ تو ملتی ہے جس کی وجہ آغا خان سے اختلافات تھے لیکن سُنی مسلمان ہونے کی نہیں؛ ہوسکتا ہے یہ سچ ہو اور ہو سکتا ہے کہ مولوی حضرات کا دل جیتنے کی کوشش ہو اور ہوسکتا ہے کہ افواہ ہو جس کا قائداعظم کو بھی علم تک نہ ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو مولوی حضرات انگریزوں جیسی وضع قطع کے باعث قائداعظم کو انگریز کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اور “پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے”؛ انھوں نے پاکستان بنتے ہی اس کے خزانوں پر اپنا حق جتا دیا۔ چونکہ پاکستان “اسلام” کے نام پر بنا تھا تو پاکستان مخالف مولوی بھی “اسلام کے نام” پر بننےکے باعث پاکستان کو باپ کا مال سمجھ بیٹھے اور آج کی عدم برداشت اور دہشتگردی کی پنیری اسی وقت بو دی گئی۔ قائداعظم اور انکے رفقا اور وزیروں کا تعلق ہر مذہب اور فرقے سے تھا؛ یہ وہ پاکستان تھا جو آج ہمیں چاہئیے ہے اور یہ “ایڈوانسڈ” پاکستان ہمارے پاس ستر سال پہلے تھا؛ اور آج ایک معاشی ماہر کو محض اسکے مذہب اور عقیدے کے باعث نوکری دیکر نکال دیا گیا،کیسی ترقی معکوس کی ہے ہم نے!
قائداعظم کا پاکستان “ایمان اتحاد اور تنظیم” کا پاکستان تھا اور اسے ہی دوبارہ لانا ہے۔ جھنڈے کے سبز رنگ سے پیار اور سفید رنگ والوں کا احترام ہی قائداعظم کی روح کو سکون پہنچائے گا۔ سچائی اور مستقل مزاجی سے یہ کام ہوگا، محض بیانات دینے سے نہیں۔ ستیہ گراہی کا متبادل نام “قائد کا سپاہی” ہے۔ قائد کا سپاہی سچائی اور ثابت قدمی کے ساتھ قائد کے فرمودات پر عمل کرنے والا اور ملک کو امن و آتشی کا گہوارا بنانے والا ہوگا اور قائداعظم اسے دیکھ کر عالم بالا میں مسکرائیں گے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-