“عرب میں جمہوریت” اور جمال خشوگی

کیا جمال خشوگی کا قتل، “عرب اسپرنگ” کے نام پر مصر، لیبیا، تیونس، شام کی طرح تباہی سے بچے سعودی عرب میں اس “بہار” کی شروعات ہے یا سعودی بادشاہت کے تابوت میں آخری کیل؟
یہ سلسلہ اس سے بہت پرانا ہے جتنا سوچا سمجھا اور بتایا جارہا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شہزادہ محمد بن سلطان نے کراؤن پرنس بنتے ہی شہزادہ ولید بن طلال کو قید کیا اور اسکے ٹھیک ایک سال بعد خشوگی کو قتل کردیا گیا۔ ان دونوں میں تعلق یہ ہے کہ ولید بن طلال اور خشوگی نے امریکی ٹیلیویژن بلومبرگ کے تعاون سے العریبیہ کے نام سے بحرین میں ایک نیوز چینل کھولا جس نے سعودی عرب میں بادشاہت کی دھجیاں اڑانی تھیں لیکن اسے گیارہ گھنٹے کے اندر ہی بند کرنا پڑا اور کیوں بند کرنا پڑا؟ اسکے سلسلے بھی شہزادہ محمد بن سلمان سے جا ملتے ہیں۔

جمال خشوگی سعودی سلطنت اور وہابیت کا سب سے بڑا ناقد اور برملا اظہار کرنے والا سعودی شہری تھا لیکن اسکے ساتھ ساتھ اسکی زندگی پراسراریت سے مزین ہے۔ اسلحے کے تاجر عدنان خشوگی کا بھتیجا ہونے سے لیکر اسامہ بن لادن کا دوست ہونے تک؛ جمال خشوگی بے پناہ رازوں کا امین تھا۔ المدینہ اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے نوے کی دہائی میں افغانستان میں اسکی آمدورفت ایک صحافی سے زیادہ ایس اے آئی اے (سعودی عریبیہ انٹیلیجنس ایجنسی)کے ایجنٹ کے طور پر تھی جبکہ شنید تھی کہ وہ ڈبل ایجنٹ کے طور پر سی آئی اے کے لیے بھی کام کررہا تھا۔ یہاں سے وہ سعودیہ کا ناپسندیدہ انسان بنا۔

جمال خشوگی ایک لبرل مسلمان اور وہابیت میں نرمی لا کر اہل تشیع کے ساتھ بھائی چارے کا داعی تھا اور اسرائیل کے مغربی کنارے پر پھیلاؤ کا سخت مخالف تھا۔ اسے متعدد بار آزاد صحافت سے روکا گیا تو وہ امریکہ آگیا اور واشنگٹن پوسٹ میں لکھنے لگا۔ المدینہ سے لیکر الوطن تک شاید ہی کوئی ایسا اخبار ہو جس سے نکالا نہ گیا ہو۔ رواں سال خشوگی نے ڈیموکریسی فور دی عرب ورلڈ ناؤ“عرب میں جمہوریت” کے نام سے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی لیکن اسے اس جہان فانی سے ہی کوچ کرا دیا گیا۔ جمال کے قتل سے چند سوال جنم لیتے ہیں

۱- کیا شہزادہ محمد بن سلطان کے کہنے پر اسے قتل کیا گیا؟ جواب ہے نہیں؛ ایسے قتل سڑک پر حادثوں اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں کئے جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے سخت تفتیش کی گئی ہو اور اس دوران ہلاک ہو گیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی سفارت خانے میں کوئی اسرائیلی سیٹ اپ ہو اور اسے قتل کرکے، سعودی عرب کو مزید گھٹنوں ہر جھکایا جاسکے۔

۲- کیا جمال خشوگی سی آئی اے یا موساد کا دانستہ یا نادانستہ طور پر ایجنٹ تھا؟ نادانستہ طور پر اسکے لبرلزم کو ہوا دیکر یا ایران کی محبت جگا کر استعمال کیا جا سکتا تھا جبکہ دانستہ طور پر اسرائیل کے خلاف بیان دلوا کر اسرائیل کے مفاد میں ہی کام پر لگایا کا سکتا تھا۔ ایسے ہی ٹویٹر پر دو ملین فالورز نہیں بن جاتے!

۳- قتل کے بعد اسکے ٹکڑے چھپا دینا انتہائی احمقانہ حرکت تھی۔ یہ جس کا بھی آئیڈیا تھا زیادہ چانس ہے کہ وہی روگ ایجنٹ ہوگا۔ لاش کو سفارت خانے میں ہی “پولیس مقابلہ” یا “حادثاتی موت” قرار دینے سے بچ نکلنے کے زیادہ چانس تھے۔

آج سے تین ہفتے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب ہمارے بغیر دو ہفتے نہیں چل سکتا اور دو ہفتے میں ہی یہ ثابت بھی کردیا۔ حالیہ بیان کے مطابق ٹرمپ اور پومپیو سعودی عرب پر بہت سخت ہیں۔ شہنشاہ سلیمان نے جمال خشوگی کے بھائی اور بیٹے کو بُلا لیا ہے اور ظاہر ہے خون بہا ہو جائے گا لیکن ٹرمپ اتنا سستا خون بہا ہونے نہیں دیگا۔ اگلے مہینے میں یا تو ایک سو ارب ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب امریکہ سے خریدے گا یا پھر اسرائیل کو مزید ڈھیل ملے گی۔ جمال خشوگی کا خون سعودی عرب کو بے پناہ مہنگا پڑے گا۔ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن لگتا ہے کہ عرب اسپرنگ کی پہلی کونپل اسکی قبر پر کے سرہانے کھلے گی!!!!!

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *