مذہبی اعتبار سے تاریخ کے اس مشکل ترین دور میں پاکستانی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ عقل اور دانش رکھتی ہے اور سستے جذبات بھڑکانے کا دور گزر گیا ہے۔ اس امتحان میں کامیابی پر لبرل اور مذہبی طبقے دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آسیہ بی بی کے کیس میں تین نکات اہم ہیں
۱- کیا آسیہ بی بی نے گستاخی کی یا یہ الزام جھگڑے کا شاخسانہ تھا؟
۲- کسی کمزور لمحے میں اس نے غلطی کی لیکن موت کے ڈر سے یا سزا کے ڈر سے اپنی بات سے مکر گئی اور آقائے دو جہاں کی عظمت کا اعتراف کیا۔ آٹھ سال سزا اور موت کے انتظار کی اذیت کے بعد کیا یہ معافی قابل قبول ہے؟
۳- اگر گستاخی ثابت ہوجائے تو کیا سزائے موت کی بجائے عمر قید یا کوئی اور سزا ہوسکتی ہے؟
مسلمان ہونے کا مطلب سرکار دو عالم سے محبت ہے ورنہ ہم مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ بدقسمتی سے ہم برائے نام مسلمان، کافروں کے اٹھائیس ہزار ارب کے مقروض ہیں۔ اگر آپ نے کسی کے دس ہزار روپے بھی دینے ہوں تو وہ گلی میں کھڑا ہوکر “ماں بہن ایک” کر جاتا ہے اور ماں بہن بھی سن رہی ہوتی ہیں اور آپ اس “گستاخی” کا گلہ بھی نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی آئی ایم ایف اقلیتوں کو سزائے موت دینے کے خلاف ہے اور نہ تو آئی ایم ایف کو گالیاں دینے سے کچھ ہوگا اور نہ ہی “ماہر خزانہ و قرضہ جات”، مولانا خادم رضوی کے مشورے سے کہ “ اسی سود نئیں دینا، آجاؤ تے لڑ لو”، ظاہر ہے کہ “پین دی سری سرکار” کو اتنا بھی شعور نہیں کہ ہمارا اسلحہ بھی قرض کی رقم سے خریدا جاتا ہے۔اگر نبی کریم سے سچی محبت ہے تو خود انحصاری کی پالیسی اپنانی پڑے گی اور کرپشن ہر معاملے میں ختم کرنی پڑے گی اور سائنس اور ترقی میں نام پیدا کرنا پڑے گا۔
آسیہ بی بی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی پوری قوم نے تائید کی۔ بائیس کروڑ میں سے محض آٹھ دس ہزار سڑکوں پر آئے اور ان میں سے پانچ سو کے قریب نے توڑ پھوڑ کی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا عدالتی فیصلہ ہوا جو عوام کی امیدوں کے برعکس تھا اور کیا اتنا بھی ری ایکشن نہ ہو؟ کیا ہمارے صحافی دنیا کے احتجاج نہیں دیکھتے یا پاکستان کو ہی ذلیل کرنے کے پیسے ملتے ہیں؟ پچھلے سال امریکہ کی ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسویل میں مٹھی بھر لوگوں کے احتجاج میں تین لوگ ہلاک اور تینتیس زخمی ہوئے تو ان پانچ سات سو نے بھی کیلے چرائے، قادیانی موٹر سائیکلیں یا کافر رکشے (بقول سوشل میڈیا کے طنز نگاروں کے) جلائے لیکن بہرحال کسی انسان کو دانستاً نقصان نہیں پہنچایا۔ یقیناً املاک کو نقصان پہنچانا بھی زیادتی ہے اور حکومت کو ہر ایک متاثرہ انسان کو معاوضہ دینا چاہئیے لیکن بہرحال یہ کسی کی جان لینے سے ہزار درجے بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے “لبرلز”، ان مذہبی جنونی اور دیوانے لوگوں کے برعکس، موٹر سائیکلوں کی بجائے، ماؤں کی گود اور سہا گنوں کے سہاگ اجاڑتے ہیں۔ کیا گیارہ مئی کا کراچی خون آلودہ تھا یا یکم نومبر کا پورا پاکستان؟
پاکستان میں اس وقت پچیس ہزار رجسٹرڈ اور نو ہزار نان رجسٹرڈ مدرسے ہیں۔ ہر مدرسے میں پچیس طالبعلم بھی ہوں تو یہ کم از کم دس لاکھ طلبہ بنتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے جو لفظ “مولوی” کو ذلیل کر رکھا ہے انھیں پتا ہو کہ اگر سب “مولوی”، خادم رضوی جیسے دماغی مریض ہوتے تو دس ہزار کی بجائے دس لاکھ سڑکوں پر ہوتے اور پھر نہ تو عدالت انھیں روک سکتی نہ ہی فوج؛ لیکن ننانوے فیصد مولوی حضرات نے زبانی احتجاج تو کیا لیکن گالم گلوچ یا ہنگامے نہیں کئے۔ تو جیسے ہم برے اور اچھے سیاستدانوں یا افسروں میں تفریق کرتے ہیں ویسا ہی انصاف “مولوی” کے ساتھ بھی کریں۔ ان کا معاشرے میں اہم کردار ہے اور ان سے بھی ایسے ہی لغزشیں ہوتی ہیں جیسے ہم سب سے۔
جنگیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور مہارت سے جیتی۔ کم زور اور مقروض کے جذبات کی توہین ہوتی ہے؛ آپ آس پاس نوکروں اور ملازموں کو ہی دیکھ لیں؛ دنیا کی اقوام میں ہماری حیثیت کچھ ایسی ہی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان تمام تر جذبہ ایمان کے ساتھ لیکن ٹیکنالوجی کے بغیر میدان میں آ جائیں اور انکے مقابلے میں آئی پیڈ سے ڈرون آپریٹ کرتی شرابی اور بدکار کافر خاتون، ایک انگلی سے ان سب کو راکھ بنا سکتی ہے۔ یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے خلاف ہو رہی ہے کیونکہ ہم فروعی مسائل میں الجھ رہے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہماری قوم کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد عوام کو ایسے نازک وقت میں عقل اور تحمل کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد ہو۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں،
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-